نسخہ کیمیا

رمضان المبارک کے ان مبارک ایام میں جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ اور زور دینے کی ضرورت ہے وہ خود احتسابی ہے خود احتسابی کا مطلب و مدعا نفس کی اصلاح اور گناہوں سے توبہ اور آئندہ اس سے بچنے کی سعی ہی نہیں بلکہ اس ے بڑھ کر قدم قدم پر ہمیں اپنی اصلاح پر جس قدر توجہ کی ضرورت ہے اس کو مدنظر رکھا جانا چاہئے ۔ رمضان المبارک صبر کامہینہ ہے لیکن ہم نے صبر کی بجائے بے صبری اور جلد بازی کو خود پر سوار کیا ہوتا ہے اس کے مظاہرے ہمارے روز مرہ کے معمولات سے ظاہر ہے اگرچہ یہ صرف ایک نکتہ معترضہ ہی ہے لیکن بہرحال ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں خیبر پختونخوا میں جھگڑے بہت ہوتے ہیں ظاہر ہے جہاں روزے رکھنے کی شرح زیادہ ہو گی وہاں پھر اس طرح کے واقعات بھی سامنے آئیں گے یہ کسی پر طنز اور اعتراض نہیں میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ پاکستان کے کسی دوسرے علاقے کی بہ نسبت خیبر پختونخوا میں روزے کی پابندی کی شرح سب سے زیادہ ہے یہ ایک مثبت اور قابل تعریف پہلو ہے لیکن ساتھ ہی اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ روزہ جس صبر و برداشت تحمل اور درگزر کی متقاضی عبادت ہے اس کی پیروی و پابندی میں اس احتیاط کا مظاہرہ نہیں ہوتا جو روزے کی عبادت کا مقصد اور مدعا ہے ۔ رمضان المبارک ہمیں اپنے معاملات کی درستگی کا موقع اور تربیت فراہم کرتا ہے بھوک و پیاس کی مشقت اٹھانے کے باوجود اگر ہم صبر و برداشت سے کام نہیں لیتے یا پھر اگر اس کے لئے ہم آمادہ ہی نہیں ہوتے یا پھر صریح لفظوں میں اگر یہ ہمارے روزے اور اس کے آداب کا حصہ ہی نہ ہو کہ روزے میں ہمارا طرزعمل کس قدر محتاط ہونا چاہئے تو پھر اس کی اصلاح اور اسے اختیار کرنے کاجذبہ اپنے اندر پیدا کرنے پر توجہ کی ضرورت ہو گی بلاشبہ خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے کیونکہ انسان عموماً فطرتاً خود کو خامیوں سے پاک اور تمام غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا رہا ہوتا ہے ویسے بھی انسان کو اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں نظر نہیں آتیںاس کا عدم ادراک اور اس پر عدم توجہ ہی وہ باعث فساد امر ہے جو ہماری اصلاح کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے خود کو جانچنا اپنی غلطیوں خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرکے ان کی اصلاح کرنا اور اپنے ہر عمل کا خودحساب رکھنا خود احتسابی کہلاتا ہے جس سے ہم کوسوں دور رہتے ہیں خود احتسابی کے بغیر ہمیں اپنی گردن کا شہتیر کبھی دکھائی نہیں دے گا اور دوسرے کا طرزعمل ہی ہمیں معیوب اور معتوب نظر آئے گا خود کو اگر کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے ہم دوسروں کو کٹہرامیں کھڑا کرتے رہیں گے تو ظاہر ہے ہم کبھی بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے واقف ہی نہیں ہوسکیں گے جب دوسروں کی جگہ خود کو کٹہرے میں کھڑا کرکے دیکھا جائے اور تنقید کی ایک گہری نظر اپنے آپ پر ڈالی جائے تبھی تو ہمیں ہمارے اعمال جو ظاہر ہے سب سے زیادہ ہمیں کو معلوم ہیں اس میں خامیاں خرابیاں نظر آنا شروع ہو جائیں گی اور دیگر کے مقابل میں خود اپنا کردار کمزور اور قابل اصلاح نظر آئے گا تبھی ہم اس کی طرف متوجہ ہوں گے جب من آنم کہ من دانم کی منزل آئے گی تبھی ہم معاشرے کا مفید فرد بن سکیں گے مگر یہ منزل بہت مشکل ہے باری تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خود سے کمتر ڈھونڈنے کی ہدایت کی تو بعد از تلاش بسیار مالک کائنات کے حضور پیغمبر علیہ السلام نے عرض کیا کہ مالک کائنات مجھے تو اس پوری دنیا میں اپنے آپ سے کمتر اور حقیر کوئی نہیں ملا تب کہا گیا کہ اے موسیٰ اگر تمہارا جواب اور تمہاری جستجو کا حاصل و نتیجہ یہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں نبوت کے درجے سے سبکدوش کر دیتے ۔ آج اگر میں اور آپ اپنے آپ سے سوال کریں اپنے من سے پوچھیں تو ہمارا جواب بالکل الٹا ہوگا میں اور آپ کبھی بھی خود کو کمتر جاننے پر کبھی آمادہ ہی نہیں ہوتے ہم کبھی یہ سوچتے ہی نہیں کہ ہم کمتریں خلائق ہیں بلکہ ہم یہ سوچنے کے عادی ہیں کہ میں جسمانی قوت اور وجاہت و خوبصورتی کا مجموعہ ہوں گھنٹوں آئینے کے سامنے خود کو سنوارتا دیکھنے کے عادی ہیں ہم ظاہر بین ہیں باطن پر توجہ ہی نہیں ہماری نفسیات ہمیں ا جازت ہی نہیں دیتی کہ ہم کسی کو اپنے سے برتر دیکھنے پر آمادہ ہوں۔ ہم اپنے عہدے اور گریڈ کے مطابق دیکھنے کے عادی ہیں اپنے سے اوپر کے گریڈ ہی کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ میں بیس میں ہوں تو وہ ا کیس میں ہے چلو کوئی بات نہیں سال دو سال پانچ سال بعد میں بھی اکیس میں جائوںگا کیا ہوا آج اگر وہ ہے عرصہ بعد آخر میں نے بھی تو ان کا گریڈ لینا ہے اسی وقت تک وہ ریٹائر ہوکر پھر سے عام آدمی بن چکا ہوگا میرے پاس فلاں ماڈل کی فلاں گاڑی ہے میرا گھر وسیع اور بڑا ہے میرے بچے قابل اور ذہین ہیں وغیرہ وغیرہ ہم نے تو پست دیکھنے اور زوال کا کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا ہمیں ان عارضی چیزوں کی بے ثباتی کا کبھی خیال بھی نہیں گزرتا ہم نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہوتا کہ جس جسمانی صحت اور حسن و وجاہت کا بھوت آج سوار ہے ایک معمولی بیماری اس سے نہ صرف دور کرنے کا باعث بن جائے گی بلکہ یہ پوری رنگینی و رعنائی بے رنگ ہو جائے گی قدرت کی ساری نعمتیں پاس ہو کر بھی بے مقصد بن جائیں گی ذرا سی سوچ اور فکر سے کام لیں تو انسان سے عاجز اور بے بس مخلوق نہیں ملے گی۔ آج ہمیں رمضان المبارک کی ان مبارک ساعتوں میں اپنی اصلاح سے ابتداء کی ضرورت ہے فرد کی اصلاح ہو تو معاشرے کی اصلاح ہو گی اورمعاشرے کی اصلاح ملکی وقومی اصلاح کا ذریعہ اور راستہ ثابت ہو گا۔انسان جتنی بار اپنی اصلاح کرتا ہے خود احتسابی سے کام لیتا ہے اتنی بار ہی اس کے کام میں مزید بہتری آتی ہے جو لوگ خود احتسابی کو اپنا وتیرہ بنا لیں وہی ہمیشہ کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں۔ اگر زندگی کی روانی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی ہر ناکامی میں کہیں نہ کہیں اپنی کوتاہی پوشیدہ ہوتی ہے جسے خود احتسابی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے جو لوگ کبھی اپنا احتساب نہیں کرتے اور ہمیشہ دوسروں کو ہی قصوروار ٹھہرانے کی عادی ہوتے ہیں ان کو کامیابی اور خوشیاں مشکل سے ملتی ہیں ۔ آج کہنے کو تو ہم سب اصلاح معاشرہ کے لئے فکر مند دکھائی دیتے ہیں لیکن خود اپنا احتساب کرنے کو تیار نہیں مگر بجائے اپنے آپ کو بدلنے کے ہم دوسروں کو بدلنا چاہتے ہیں ہر کوئی دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تلا ہوتا ہے مگر یہ نسخہ کیمیا نہیں بلکہ نسخہ کیمیا یہ ہے کہ ہر فرد خوداپنے آپ میں کوتاہیوں اور خامیوں کو تلاش کرے اور اپنا احتساب کرے کیونکہ معاشرے میں تبدیلی خود سے شروع ہوتی ہے اور انسان خودمیں جو تبدیلی لا سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں لا سکتا۔احتسابی عمل خود سے شروع ہو کر خود پہ ختم ہونا چاہئے تاکہ یہ ہماری ذات سے شروع ہو کر گھر اور خاندان سے ہوتے ہوئے پورے معاشرے تک جائے اور ہم مل کر ایک مثالی معاشرہ تعمیر کر سکیں۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟