گاڑیوں کی بندربانٹ

گزشتہ روزسامنے آنے والی اس خبر پر کہ خیبر پختونخوا کی نگران صوبائی حکومت کے 17 وزراء اور مشیروں کو گاڑیوں کے ”ریوڑ” دینا اس مقروض ملک کے ساتھ کھلواڑ کی کونسی قسم ہے ‘ اس پر اعتراض اوراس اقدام کو غریب اور مقروض صوبے کے عوام کے ساتھ ظلم اور بدترین خیانت قرار دینے کے بیانئے کو کیسے رد کیا جاسکتا ہے ’17 وزراء اور مشیروں کومجموعی طور پر 62 لگژری گاڑیاں دینا کس قانون کے تحت درست تسلیم کیا جاسکتا ہے یہ اعتراض بجا ہے کہ نگران کابینہ عوام کے منتخب کردہ لوگ نہیں ہیں ‘ بلکہ وہ تین مہینوں کے لئے عبوری انتظام چلانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ‘ ان کا محدود مینڈیٹ ہے ان کویہ حق نہیں کہ وہ اپنے محدود اختیارات سے تجاوز کرکے عیاشی کریں ملک معاشی طور پرتباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ایک طرف لوگ دووقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں اوردوسری طرف مشیر بھی 7سے 8 گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں اس حوالے سے آج یعنی 29 مارچ کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر پر کہ نگران وزیر زراعت نے 6 میں سے ایک گاڑی واپس کردی ‘ یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ حاتم طائی کی قبر پرلات رسید کرنا ‘ اس ساری صورتحال کو ناناجی کی فاتحہ اور حلوائی کی دکان سے تشبیہ دینے میں بھی کوئی امرمانع نہیں ہے ‘ ایک مشیر نے بھی وضاحت کردی ہے کہ ان کے پاس آٹھ نہیں دوسرکاری گاڑیاں ہیں ‘ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک گاڑی سے بھی سرکاری کام چلایا جاسکتا ہے تودوگاڑیوں کاکیا جواز بنتا ہے کیا ان وزراء اور مشیروں کو یہ نہیں معلوم کہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کیا ہے اور ایک مقروض ملک کو توچھوڑیئے ایک طرف خود ہمارا صوبہ کتنا مقروض ہے ‘ اور ایک تباہ حال معاشی صورتحال کاصوبے کی معیشت پر کیا منفی ا ثرات مرتب ہو رہے ہیں ‘ اتنی زیادہ تعداد میں سرکاری گاڑیوں کی اس بندر بانٹ کاجواز کیا ہے؟ اور عوام یہ جاننے کاحق رکھتے ہیں کہ کس قانون کے تحت ایک ایک وزیر اور مشیر کو سرکاری استعمال کے علاوہ ان کے خاندانوں کے لئے کیوں سرکاری گاڑیاں دی گئی ہیں جن پر پٹرول کی مد کے علاوہ ڈرائیوروں کی فوج ظفر موج کی تنخواہوں کے بے پناہ اخراجات کس کھاتے میں کئے جارہے ہیں ‘ سیاسی معاملات پرسووموٹو ایکشن لینے والی معزز عدلیہ سے گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال کا بھی جائزہ لے اور ان اللوں تللوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی