آئین و قانون کی بالا دوستی ؟

وزیر اعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کے ملک میںغیر منصفانہ نظام نہیں چلے گا ۔ سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں، کتنے اعلیٰ جج کرپشن پر نکالے گئے’ سیاستدانوں کے خلاف آنکھیں بند کر کے کیسنربن جاتے ہیں۔ یہ غیر عادلانہ اور غیر منصفانہ نظام نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کو ملک میں جاری معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہو گا ‘ ارکان پارلیمان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم گائے بھینس کی طرح ہانکے جائیں گے یا آئین پر عمل درآمد کریں گے ‘ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم ہر فیصلے میں کابینہ سے مشاورت کرتے ہیں تو باقی تمام اداروں کوبھی اپنی کابینہ کے مشورے سے مل کر فیصلہ کرنا چاہئے ‘ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں آڈیو لیک سامنے آئی ہیں جس میں سپریم کورٹ کے ججز کے بارے میں باتیں کی گئیں ‘ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کہتا ہوں کہ آڈیو کافرانزک کرایاجائے اگر جھوٹی ہے تو مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے اگر سچ ہے تو سچ سامنے آنا چاہئے ۔ اب عدل نظر آئے گا تو تمام خطروں کے بادل ختم ہوجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کے دو ججوں کا فیصلہ آیا ‘ عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی نئی کرن ہے ‘ اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مورخ ہمیں معاف نہیں کرے گا امر واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں ملک کے اندر سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات خصوصاً محولہ دو صوبوں میں الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی کے معاملے پر ازخود نوٹس پر جو سیاسی اور آئینی معاملات زیر بحث ہیں ‘ ان کو ایک لحاظ سے آئینی اور قانونی بحران سے تشبیہہ دی جائے تو شاید کچھ اتنا غلط بھی نہ ہو ‘ کیونکہ عدالت عظمیٰ کے اندر اس از خودنوٹس کیس کی شنوائی کے دوران بعض فاضل ججز کی جانب سے جس قسم کے ریمارکس سامنے آرہے ہیںاگرچہ وہ حتمی رائے نہیں ہے ‘ تاہم ا ن سے ملک کے اندر آئینی اور قانونی ماہرین کے درمیان تقسیم کی سی صورت کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے ‘ اور اسی تناظر میں وزیر اعظم نے ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے ایوان سے خطاب میں تجاویز پیش کردی ہیں ‘ اور ایوان میں ایسی قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے جس سے موجودہ مبینہ ابہام ختم ہوسکے ‘ انہوں نے انصاف کے ترازو کو ایک جانب جھکائو کی جو بات کی ہے اس حوالے سے بھی ملک کے اندر پہلے ہی سے متعلقہ حلقوں کے اندر چہ میگوئیاں کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ وزیراعظم کی اس بات سے بھی عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف توفوری مقدمات بھی بنتے رہے ہیں بلکہ آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے ‘ لیکن دیگر اداروں کے حوالے سے ایسی کوئی صورتحال کبھی سامنے نہیں آئی ‘ عدلیہ کے ججز پر اگرچہ کرپشن کے الزامات بھی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان کی تحقیقات کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی حالیہ دنوں میںاس حوالے سے جن آڈیو ٹیپس کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے اس حوالے سے خود عدلیہ کا رویہ بھی سوچ کے نئے دروا کرتا دکھائی دیتا ہے چونکہ ملک کے اندربعض اداروں یا افراد کو مبینہ طور پر مقدس گائے کا درجہ حاصل ہے اس لئے وزیر اعظم کاعدلیہ سے ان آڈیو ٹیپس کے فارنزک تجزیہ کرنے کا مطالبہ بھی کئی سوالات کو جنم دیتا دکھائی دے رہا ہے بہتر ہے کہ حکومت خود ان آڈیوز کا فارنزک ٹیسٹ کراکے اصل حقائق منظر عام پرلائے تاکہ سچ اور جھوٹ سامنے آسکے ‘ ادھر پاکستان بار کونسل نے الیکشن پراز خود نوٹس کو سیاسی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی ‘ رول آف لاء کے لئے اعلیٰ عدلیہ کوسیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ‘پاکستان بار کونسل نے پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن معاملے پرفل کورٹ بنچ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں تقسیم پر تشویش کاا ظہار کیا اور کہا ہے کہ ملک کو انارکی سے بچانے کے لئے کیس کی سماعت فل کورٹ کو کرنی چاہئے ‘ بار کونسل نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کا وقار برقرار رکھنے کے لئے سیاسی جماعتیں ججز کی کردار کشی سے پرہیز کریں ‘ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ ججز کے فیصلوں پرتنقید ہونی چاہئے ان کی ذات کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے ‘ بار کونسل نے کہا ہے کہ ازخود نوٹس کیس کے اختیار سے متعلق رولز بنائے جائیں ‘ عدلیہ کی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے کمیٹیاں بنا کر بنچز تشکیل دیئے جائیں ‘ پاکستان بار کونسل کے ان مطالبات کے بعد پارلیمنٹ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور جس طرح وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اگر آج پارلیمنٹ معاملات کوسدھارنے کے لئے قانون سازی نہیں کر سکی تو کل کامورخ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ اس لئے پارلیمنٹ کوموجودہ آئینی اور قانونی ابہام کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے پر توجہ دینا چاہئے تاکہ آئندہ اس حوالے سے کوئی آئینی اور قانونی ابہام پیدا نہ ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟