عوام کا معاشی اور جسمانی قتل عام

دنیا کے مہذب اور ترقیافتہ ممالک حتیٰ کہ
ہندوستان میں بھی اکثر و بیشتر مذہبی تہواروں پر استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کر کے رعایتی قیمتیں آویزاں کر دی جاتی ہیں تاکہ ہر شخص اپنی مذہبی رسومات اور تہوار کو اپنے اہل و عیال کیساتھ ہنسی خوشی منا سکے، وہاں کی ریاستیں اپنے عوام کے حقوق اور ان کی صحت کا خیال اپنے طے کردہ اولین فرائض کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں رمضان ہو یا عید یا دوسرے تہوار عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ بازار اور دکانیں غیر معیاری اشیا سے بھر دی جاتی ہیں نہ اخلاقی طور پر بیچنے والے اسے جرم سمجھتے ہیں اور نہ ہی ریاست اور حکومت نے اس گھنائونے اقدام کی طرف کوئی توجہ دی، مردہ جانور ہوں، مردہ مرغیاں ہوں، خراب و گلے سڑے پھل اور سبزیاں ہوں یا زائد المیعاد دالیں اور خوردنی اجناس تیل گھی وغیرہ ہوں، مضر صحت ملاوٹ شدہ اشیا کی خرید و فروخت یہ سب کام روزمرہ کی بنیاد پر متعلقہ حکام کی آشیر باد سے ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہے ہیں، درحقیقت اسے روکنا یا اس پر سنگین عبرتناک سزائیں دینا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے روزمرہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے کی آمدن کا سلسلہ جاری رہتا ہے، یہ رقم نیچے سے لے کر اوپر تک پہنچتی ہے، اس وقت کینسر اور دوسرے خطرناک امراض بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں اس کی وجوہات میں یہ عوامل شامل ہیں، عرب عمارات ہو یا یورپ امریکہ ہو، چین یا جاپان، افغانستان، ہندوستان، ایران ، عراق، ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور تمام ممالک میں انسانی جانوں سے کھیلنا قتل اور اقدام قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ ان ممالک کے قوانین بلا کسی تعطل اور سفارش کے24 گھنٹے حرکت میں دکھائی دیتے ہیں، وہاں انسانی زندگی ہمارے پاکستان کے نسبت قدرے قیمتی ہے، وہاں ہوٹل اور ریسٹورانٹ پر چھاپے پڑتے ہیں، صفائی چیک کی جاتی ہے، سزا اور جزا کے قوانین خود بولتے ہیں، معمولی غلطیوں پر سالہا سال کے چالو کاروباری مراکز کو مکمل سیل کرکے بند کر دیا جاتا ہے، ڈر، خوف اور شرمندگی کی وجہ سے کوئی کسی کے لئے سفارش نہیں کر سکتا، بھاری بھرکم جرمانے اور قید و بند کی سزائیں دی جاتی ہیں، قانون حرکت میں ہوتا ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ اگر ان مردار جانور اور مضر صحت اشیاء فروخت کرنے والے ہاتھوں کو نہ روکا گیا تو یہ ہماری نسلیں تباہ کردینگے وہاں ایسی گھنانی شرمناک وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ منافع بخش طریقہ روزگار بن چکا ہے، ہاتھ میں تسبیح، زبان پر ذکر کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے جرائم پر پراسرار طور پرخاموش رہتے ہیں، منبر و مسجد سے ان جرائم پر کھل کر کبھی کوئی صدا سنائی نہیں دی، اگر علماء کرام ان مسائل پر اللہ رب العزت اور نبی پاکۖ کے وضح کردہ احکامات کی روشنی میں کھل کر بات کریں تو مقامی سطح پر بہتری کی کافی گنجائش ہے اور اس کے مثبت
اور بہترین نتائج سامنے آسکتے ہیں، کاش کہ ایسا ہوتا ہوا نظر آئے، ہماری بدقسمتی سے جن گناہوں سے ہمیں ہمارے رب اور رسول کریمۖ نے منع فرمایا ہے ہم وہی گناہ شعوری طور پر ڈنکے کی چوٹ پر اللہ کے غیض و غضب کو للکارکر کر رہے ہیں، یاد رہے بم دھماکے یا فائرنگ سے اسی وقت جان چلی جاتی ہے مگر مردار اور ملاوٹ شدہ اشیاء کھانے سے انسان سسک سسک کر مرتا ہے، دھماکہ یا فائرنگ کرنے والوں پر دہشت گردی ایکٹ کی دفعات لگائی جاتی ہیں لیکن مضر صحت، ملاوٹ شدہ اشیا بیچنے والوں کو برائے نام گرفتار کرکے معمولی جرمانہ عائد کرکے دوبارہ انسانی جانوں سے کھیلنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے، ملاوٹ شدہ اشیاء کے استعمال کے نتیجے میں عوام قتل ہو رہے ہیں وہ بیچارے ناسمجھ جان اور مال دونوں سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں مگر اسے قتل نہیں سمجھا جاتا، کیا حکومت نام کی کوئی چیز ہے جو عوام کے جان و مال سے کھلم کھلا کھیلنے والوں کا حقیقی معنوں میں احتساب کرنے کی جرأت کرسکے، ابھی تک حکومتی سطح پر محکمہ خوراک اور زیادہ سے زیادہ ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کو یہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں مگر وہ بھی ناکام رہے ہیں، وہ بھی اپنے فرائض نہیں نبھا رہے کیونکہ ایسے بے ضمیر لوگ ان اداروں کے لئے آمدن کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں جب تک مردہ، بے ضمیر ادارے فعال ہیں یہاں انسان مرتے رہیں گے، حکومت کو چاہئے کہ لوکل باڈیز کے منتخب نمائندوں اور مقامی تھانوں کی بہترین اور جامعہ تربیت کر
کے مقامی عمائدین پر مشتمل اصلاحی کمیٹیاں تشکیل دے اور انہیں بااختیار کرکے مقامی سطح پر دکانوں کی روزمرہ کی بنیادوں پر چیکنک شروع کرائے، کم وزن روٹی بیچنے والے نانبائیوں، کیمیکلز ملا دودھ کی دکانوں، ریڑھی بانوں، سبزی و پھل فروشوں کا محاسبہ انتہائی آسان طریقے سے کیا جاسکتا ہے بس اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے، مقامی سطح پر یہ اصلاحی کمیٹیاں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرسکتی ہیں جبکہ بڑی بڑی منڈیوں اور بیوپاریوں کو اسسٹنٹ کمشنرز اور مقامی ڈی ایس پیز روزمرہ کی بنیاد پر چیک کر کے قابو کرسکتے ہیں نہ کوئی مہنگی اشیاء بیچ سکے گا اور نہ ہی ملاوٹ شدہ اشیاء بازاروں میں بک سکیں گی، ان کیمیکلز ملے دودھ نے ہماری اور ہماری نسلوں کی ہڈیوں کو کمزور کردیا ہے، ملاوٹ شدہ مصالحہ جات، غیر معیاری اور جعلی ادویات نے ہمیں بیماریوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، یہاں انسانی زندگی سے کھیلنا انتہائی آسان اور منافع بخش ذریعہ معاش بن چکا ہے، کوئی پرسان حال نہیں، خدارا اس قتل عام کو روکا جائے، لوٹ کھسوٹ کے اس کالے دھندے کو بند کرنا پڑیگا ورنہ یہ ہماری نسلوں کو نگل جائے گا اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، مہنگی چیزیں بیچنا معاشی قتل اور ملاوٹ شدہ اشیاء کی خرید و فروخت جسمانی قتل ہے، فیصلہ ریاست اور حکومت نے کرنا ہے کہ موثر قانون سازی کرکے عوام کا قتل عام روکنا کیسے ممکن ہے، کنزیومر کورٹس ہیں مگر عوام میں اپنے کنزیومر رائٹس کے حقوق کا شعور نہیں، قانون ہے مگر عملدرآمد نہیں، ادارے ہیں مگر اختیار نہیں، یہ سب کچھ ٹھیک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اگر واقعی حکومت ہو۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟