آئین کی بالادستی کے تقاضے

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے التوا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز جو وضاحت کی ہے اس سے یکم مارچ کو سامنے آنے والے ”فیصلے”کے بارے میں بنچ کے درمیان اختلافات زیادہ کھل کر سامنے آگئے ہیں’ محولہ بنچ میں شامل دوججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے دستخطوں سے 28 صفحات پر مشتمل جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس کے بعد ازخودنوٹس کیس کے حوالے سے موجودہ اختلافات کے طریقہ کار پر بھی سنجیدہ سوال اٹھ رہے ہیں’ کسی بھی بنچ میں شامل جج صاحبان کے درمیان اور چیف جسٹس سے اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ سے واضح ہوتا ہے کہ ازخودنوٹس کے ساتھ ساتھ دیگر بنچز مع خصوصی بنچ کی تشکیل تمام ججز کی منظوری سے رولز کی بنیاد پر ایک سسٹم کے تحت ہونی چاہئے۔ ادھر سپریم کورٹ کے سینئر ترین حج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم ایک اور بنچ نے رولز بنائے جانے تک ازخود نوٹس کے تمام کیسز ملتوی کرنے کا حکم جاری کرکے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے، دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سر براہی میں قائم بنچ نے قرار دیا ہے کے چیف جسٹس کو خصوصی بنچ بنانے کا اختیار نہیں، سوموٹو کا آئین میں وجود نہیں ہے’ ادھر قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات کا بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کم کئے گئے ہیں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر نامی اس بل کے مسودے میں موجود ترامیم کے مطابق بنچوںکی تشکیل ازخود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے، یہی کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم تین ججوں پر مشتمل بنچ کو بھجوائے گی، انٹرا کورٹ اپیل پر14 روز میں سماعت ہوگی، ارجنٹ معاملات کے کیسز بھی14 روز کے اندر اندر سماعت کیلئے مقرر ہوں گے، قومی اسمبلی سے منظوری سے پہلے یہ بل قائمہ کمیٹی برائے قانون سے منظور ہوا تھا’ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا یعنی سینٹ سے منظور کیا جائے گا جس کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا’ محولہ بل کی حتمی منظوری میں اگرچہ ابھی کچھ مراحل باقی ہیں جن میں ایوان بالاسے منظوری کے بعد صدر مملکت کے اس بل پر دستخط بھی شامل ہیں’ جبکہ تحریک انصاف نے اس بل کی ایوان بالا میں مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے’ دوسری جانب وکلاء تنظیمیں بھی اس صورتحال پر اتفاق و اختلاف رائے کے حوالے سے سامنے آگئی ہیں’ سابق چیئرمین سینٹ’ سابق وزیر قانون وسیم سجاد نے کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات پر سپریم کورٹ سے مشورہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے’ اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ جیسے سینئر ماہرین قانون نے بھی حکومتی موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ از خود نوٹس آئینی اختیار ہے’ محض قانون سازی سے محدود نہیں کیا جاسکتا’ اگرچہ یہ قانونی گتھیاں ہیں جن پر ماہرین آئین وقانون ہی بہتر طور پر روشنی ڈال سکتے ہیں تاہم اگر بقول ا عتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ ازخود نوٹس آئینی اختیار ہے تو پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے فیصلے اور اس حوالے سے سامنے آنے والے ریمارکس کو کن معنوں میں لیا جائے گا جنہوں نے کہا ہے کہ ”سوموٹو کاآئین میں وجود نہیں”۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں سوموٹو کے اختیار کے تحت مختلف چیف جسٹس صاحبان نے جوبے دریغ استعمال کیا خاص طور پر جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار نے بقول بلاول بھٹو زرداری”ہمیں بلیک میل کرکے اور ہمارے ہاتھ مروڑ کر” جو فیصلے مسلط کئے ان پر ماہرین آئین و قانون کی کیا آراء ہیں’ بہرحال یہ آئینی اور قانونی معاملات ہیں اور اصولی طور پر چونکہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ملکی معاملات کو چلانے کے لئے قانون سازی کا اختیار ہے اس لئے اس حوالے سے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے فلور پر جن حقائق کا اظہار اراکین نے اپنی تقاریرمیں کیا’ ان کی روشنی میں جوقانون سازی کی جارہی ہے اس پر کسی کو معترض نہیں ہونا چاہئے’ کیونکہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود اراکین بل کے ہر پہلوکو سامنے رکھتے ہوئے جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ملک و قوم کے مفاد میں ہوگا اور ملک کے ہر ادارے کو انہیں تسلیم کئے بناء چارہ نہیں ہے، امید ہے کہ ملک کے اندر اس وقت جو آئینی اور قانونی صورتحال موجود ہے محولہ بل کی منظوری کے بعد اس صورتحال کے حل کی بہتر صورت نکل آئے گی، خاص طور پر عدلیہ کے اندر اس وقت جس مبینہ تقسیم کی بحث چل رہی ہے اس پر احسن طریقے سے قابو پانے میں مدد ملے گی اور کوئی بھی شخص یاادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کا شکار نہیں ہوگا، اس ضمن میں وزیر اعظم شہباز شریف کایہ کہنا درست ہے کہ آئین پاکستان کے تمام اداروںکے درمیان توازن کا ضامن ہے اور پارلیمنٹ کو انتظامی امور میں بہتری کے لئے قانون سازی کا اختیار ہے ۔ وزیر اعظم کے ان ارشادات کے مطابق جب تک ہم پارلیمنٹ کوسپریم تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک ملکی حالات کو صحیح ڈگر پرلانے میں مشکلات کا سامنا کرناپڑے گا۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں