گھر گھر کا ایک ہی لیکھا

صدر مملکت نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ انھو ں نے عدالتی اصلا حالات کا بل ابھی ان کے سامنے نہیں آیا اس بارے میں وہ کوئی رائے نہیں دے سکتے جب بل ان کے پاس آئے گا تو وہ دیکھیں گے ساتھ ہی صدر مملکت عارف علوی نے یہ بھی فرمایا کہ بل کی ٹائمنگ بھی قابل توجہ ہے ، صدر عارف علوی سے ٹی وی کے اینکر پر سن نے سوال کیا تھا کہ جب بل منظوری کے لیے آئے گا تو کیا وہ اس پر دستخط کر دیں گے ، آئینی طور پر عمر ان نیا زی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض قومی اداروں ، آئینی شخصیا ت کے رویوںمیں بھی تبدیلی نمایاں نظر آئی ہے چنا نچہ تب سے ایوان صدر جو پاکستان کے وفاق کی علا مت ہے اس کے بارے میں یہ بڑھاوا ملا ہے کہ یہاں اس اب وفاق کی یکجہتی کی بجائے عمرانی چلن کا دور دورہ ہو چلا ہے ، اور پی ٹی آئی ترجیح نظر آرہی ہے ۔ جوانگشت نما ہیں ان کا مئوقف اپنی جگہ ہے تاہم وزیر اعظم شہبازشریف نے جو خط ایوان صدر کے مکین کو لکھا ہے اس سے اس امر کی نشاند ہی صاف نظر آتی ہے چنانچہ نجی ٹی وی کے اینکر پر سن نے بھی غالباًیہ سوال ایسی ہی نشاندہی کی بنیا د پر کیا ، بہر حال گزشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ قومی اداروں کے ارباب حل وعقد کی کا رکر دگی میں بڑ ا فرق پید ا ہوا ، جبکہ پاکستان کا اصل مسلئہ یہ ہی رہا ہے کہ اداروں کے مائی باپ کو سلوک قواعد وضوابط سے زیا دہ پسند نا پسند کی چکی میں ملیدہ ہو تارہا ہے ۔ جس سے اس لیے بھی مستفید ہوتے رہے کہ مسند نشینی کے اختیارات حق میں جاتے رہے ، جب تک بابا رحمتے سکبدو ش نہیں ہوئے اس وقت تک کوئی آواز بلند نہیںہو پائی اب کھل کر سومو ٹو کے بے دریغ استعمال اور اس میں ملفوف مقاصد کے بارے میں زبانیں بے محابا کھلی ہوئی ہیں ۔ پارلیمنٹ میں بھی اس کی گونج کھل کر سنائی دی جا رہی ہے وفاقی وزیر خواجہ آصف بھی گزشتہ روزایسے معاملا ت پر کھل گئے علاوہ ازیں پی پی کے چیئر مین بلا ول بھٹو جو پہلی مر تبہ اور کم عمر ی میں پارلیمنٹ پہنچیں ہیں لیکن ان کی کا رکردگی کسی بڑے سے بڑے پارلیمنٹرین سے کم نہیں انھو ں نے بھی اس مو ضوع پر دبنگ خطاب کیا ، صدر عارف علوی سے اینکر پر سن کا سوال موجودہ حکومت کے ساتھ جو آہنگ دیکھنے کو ملتا رہا ہے اسی پس منظر کی عکاسی کر رہا تھا ، صدر مملکت نے عدالتی
اصلا حات بل کے بارے میں وقت کی اہمیت کی طرف جو اشارہ کیا ہے اس سے یہ ہی اندازہ ہورہا ہے کہ جب صدر کے پاس دستخط کے لیے یہ بل جائے گا اور وہ اس پرغور خوص کے لیے اپنے پاس رکھیں گے یا پھر کوئی اعتراض کے حوالے سے واپس کردیں گے ، جس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں بل کو پیش کرنا پڑجائے گا ، چنانچہ اس تمام ضوابط کو بہ روکا ر لانے میں جو وقت صرف ہو گا اس میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت اپیل جو الیکشن کمیشن کی جا نب سے انتخابات کی تاریخ بدلنے کے بارے میں فیصلہ آجا ئے گا ، اس امکا ن کی وجہ سے حالا ت کے بارے میں طرح طرح کی آراء سامنے آرہی ہیں لیکن
گزشتہ روز قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سہ رکنی بینچ نے حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے ازخود نوٹس میںدوایک تنا سب سے فیصلہ جا ری کیا ہے کہ جس میںکہا گیا ہے کہ عدالتی رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 کے سب آرٹیکل 3کے تما م کیسز کو ملتوی کردیاجائے فیصلے میںکہا گیا ہے کہ خصوصی بنچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا نہیں ہے ، چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں یہ بینچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو بینچ سے الگ کریں چیف جسٹس اپنی دانش کوحکمت کی جگہ نہیں دے سکتے ، ماہرین قانون وآئین کا کہنا ہے کہ سہ رکنی بنچ کے اس فیصلے کے بعد انتخابات کی تاریخ بدلنے کی درخواست کی سما عت بھی ملتوی ہو گئی ہے ،بہر حال اس بارے میں عدالت کی رائے ہی حتمی ہے آراء توکوئی بھی ہو سکتی ہیں یہ سب آنے والے دنو ں میں واضح ہو جائے گا ، اب بات ملکی حالا ت سے ہٹ کر لی جائے ، برطانیہ میں ایک اہم ترین صورت حال سامنے آئی ہے وہ یہ کہ پاکستانی نژ اد حمزہ یو سف نے اسکا ٹ لینڈ کے
فرسٹ منسٹر کا حلف اٹھا لیا ، حمزہ یو سف کا تعلق پاکستان کے علاقے میاں چنو ں سے ہے ، فرسٹ منسٹر کا عہد ہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کے برابر ہو تا ہے ، واضح رہے کہ حمزہ یو سف مغربی یو رپ کی حکومت کے پہلے مسلما ن سربراہ ہیں اور وہ اسکا ٹش نیشنل پارٹی کے سب سے کم عمر سربراہ ہیں ، حمزہ یو سف کو فرسٹ منسٹرکاحلف اٹھانے پر برطانو ی وزیراعظم رشی سونگ نے مبارک باد دی ہے ، یہا ں یہ واضح رہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کے آباواجداد کا تعلق بھی پاکستان ہی سے ہے وہ ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، رشی سونک کے اجداد قیام پاکستان سے قبل جنوبی افریقہ منتقل ہوگئے تھے ، رشی سونک اور حمزہ یو سف دونو ں بہرحال برطانوی شہر ی ہیں اسی وجہ سے دونو ں اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کر گئے ہیں تاہم سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ حمزہ یوسف نے اپنے عہد ے کاحلف اردو زبان میں اٹھایا ، حلف لینے والوں کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ، اگرحمزہ یو سف انگریزی زبان میںحلف اٹھا لیتے تو کوئی اچھوتی بات نہ ہوتی یہ وسعت قلب کی بات ہے کہ برطانوی شہریت رکھتے ہوئے اور برطانیہ کی سرکا ری زبان انگریزی ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اردو سے اپنی محبت کا والہانہ اظہار کھلے عام کیا ۔ جبکہ پاکستانی سیا ست دانو ں اورحکام کی یہ حالت ہے کہ پاکستان کی آئینی وقومی اورسرکاری زبان اردو قرار پاتی ہے لیکن جس طرح اپنی قومی زبان کے ساتھ یہ درد مند رہنما کھلواڑ کر تے ہیں اس پر اہل علم کوبھی شرم محسو س ہو تی ہے ، ایک زما نہ تھا کہ طالب علم اورعوام الناس اپنا اردو کا تلفظ درست کر نے کے لیے ریڈیو پاکستان کی نشریا ت بڑے غور سے سنا کر تے تھے ، مگرجب سے ٹی وی در آیا تب سے تلفظ اور الفاظ کے استعمال کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلا جا رہاہے کہ صاحب علم بھی چلوبھر پانی تلا ش کر نے لگے ہیں ٹی وی پر چلنے والے ٹکرز میںاردو املا ایسی غلط خلط ہو تی ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ، کوئی اجڈ انسان بھی ایسی فاش غلطی کا مرتکب نہیں ہو پاتا ، اب ریڈیو کا زما نہ قصہ پارینہ ہو گیا ہے مگر ٹی وی کی بولی بھی خوب ہے اس کو نہ اردو کہا جا سکتا ہے اورنہ انگریز ی زبان قرار دیا جا سکتا ہے کوئی اور ملغوبہ ہے یہ تو ادیب و دانشورہی بیان کر سکتے ہیں کہ ٹی وی کی زبان درازی کو کیا نا م دیا جا سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  الزام یا سچائی؟