مشرقیات

انسانی زندگی میں حسن اخلاق کو جو اہمیت وعظمت حاصل ہے وہ کسی سے پو شیدہ نہیں، ہر مذہب اور ہر دھرم کے لوگ بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان اچھے اخلاق و کردار اور اچھے برتائو کا قائل ہے اور یقینا کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا کیونکہ اخلاقی خوبیوں کو حاصل کرنا فطرت انسانی کااہم تقاضہ ہے بلکہ بنیادی ضروریات میں سے ہے، اس کے بغیر انسان میں انسانیت اور حسن وخوبی نہیں آتی یہی وہ عظیم اور قابل قدر جوہر ہے جس کے ذریعے معاشرے میں آپسی بھائی چارہ’ اتحاد واتفاق’ پیار و محبت’ عفو و در گزر’ رفق و نرمی اور توافق وہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے اور اسی طاقت کے ذریعہ آپسی اختلاف وانتشار’ باہمی چپقلش ورنجش’ نفرت و بعد’ بڑی سے بڑی عداوت ودشمنی’ بغض و کینہ اور ہر طرح کے تضادات دور کئے جا سکتے ہیںحسن اخلاق در حقیقت انسان کا زیوراور اس کا حسن و خوبصورتی ہے اسی کے ذریعہ اجتماعی وانفرادی زندگیوں میں توازن اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کی جاتی ہے جبکہ بد خلقی اور بدسلوکی سے تمام برائیاں نفرت وعداوت اختلاف وانتشار وغیرہ جنم لیتی ہیں اور اخلاق سے عاری ہو جانے کے بعد انسان لوگوں کی نظر میں عیب دار ہوجاتا ہے، اس کے پاس کوئی قابل قدر شے اور کوئی ایسی امتیازی صفت باقی نہیں رہتی جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرے۔ گویا حسن اخلاق اور حسن سلوک انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ اور عظیم اثاثہ ہے ۔
آج کل لوگوں نے حسن اخلاق کے مفہوم کو بہت محدود اور خاص کر دیا ہے اور وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ حسن اخلاق کا مطلب صرف لوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا، مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرنا، مسکرا کر بات کر لینااور ہمدردی کے الفاظ کہہ دیناہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اپنے اندر پوری انسانی زندگی کو سمیٹے ہوئے ہے وہ صرف مذکورہ چیزوں ہی کو شامل نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سے شعبے ہیں شیریں و میٹھے بول، عفو و درگزر،شفقت و مہربانی، اکرام و اعزاز، حلم و بردباری، حیا و شرم، سخاوت، صلہ رحمی و حاجت روائی، تعاون و امداد، صبر و شکر،عدل و انصاف، امانت و دیانت، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، بیوی بچے، یتیموں مسکینوں، پڑوسی، مسلمان اور غیر مسلم حتی کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک و حسن معاملہ وغیرہ یہ تمام حسن اخلاق کے شعبے ہیں جن کی شریعت مطہرہ میں تعلیم دی گئی ہے اور ان تمام شعبوں میں اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور اس عظیم صفت سے متصف کہلانے کا مستحق ہوگا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اخلاق حسنہ، حسن معاشرت، عمدہ طرز زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برتائو اور حسن سلوک کا عمدہ نمونہ اور عملی پیکر ہے، حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی تعلیم ترویج و اشاعت اوراس کی دعوت وتبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا ”یعنی میری بعثت ہی اس لیے ہوئی ہے کہ میں حیات انسانی میں اخلاق حسنہ کے فضائل کی تکمیل کروں اوراسے کمال اور عروج پر پہنچائوں چنانچہ آپ ۖنے امت کو اخلاق فاضلانہ و کریمانہ سے متصف اور مزین کرنے کے لئے عملی نمونہ بھی پیش کیا اور مختلف مواقع پر قولی تعلیم بھی دی ۔

مزید پڑھیں:  منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے