اب ذمہ دار کون؟

خیبر پختونخوا کابینہ ممبران کو جاری گاڑیوں کا معاملہ معمہ بن گیاصوبائی وزیر معدنیات نے گاڑیوں سے متعلق لا علمی ظاہر کردی جبکہ مشیر ابتدائی و ثانوی تعلیم نے گاڑیوں کی تعداد سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے جس کے بعد گاڑیوں کے استعمال سے متعلق کئی نئے سوالات پیدا ہوگئے ہیںوزراء کا کہنا ہے کہ گاڑیاں اور کون استعمال کررہا ہے انہیں علم نہیں ہے وزراء کی جانب سے گاڑیوں سے متعلق لا علمی نے اب نیا پینڈورا بکس کھول دیا ہے کہ یہ گاڑیوں وزراء کے نام سے جاری تو ہوئی ہیں لیکن استعمال کوئی اور کررہا ہے ۔ آیا اس وضاحت میں حقیقت ہے یا پھر محض ذمہ داری لینے سے انکار کرکے جان چھڑانے کا حربہ ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے بہرحال حقائق کو زیادہ دیر چھایا نہیں جا سکے گا۔صوبے میں گاڑیوں کی بندر بانٹ اور غیر مجاز اہلکاروں کی جانب سے بھی گاڑی اور پٹرول کا استعمال بیورو کریسی کی جانب سے ایک کی بجائے کئی کئی گاڑیاں استعمال کرنا معمول کی بات ہے نگران وزراء کابھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا تعجب کی بات نہیں لیکن جب ان کی جانب سے انکار کی صورت سامنے آئی ہے تو اس امر کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ ان گاڑیوں کوان کے علم میں لائے بغیر ان کے اعزہ کی جانب سے استعمال ہو رہا ہے یاپھر بدنام وہ اور استعمال کوئی دوسرے کر رہے ہیں ہمارے تئیں اس کا کھوج لگانا کوئی مشکل امر نہیں بہرحال انکار کے بعد بھی یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ محولہ تعداد میں گاڑیاں انہی کے زیر استعمال ہیں اس ضمن میں متعلقہ منتظمین کووضاحت کرنی چاہئے کہ اصل صورتحال کیا ہے اس معاملے سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ جب ایک گاڑی سے سرکاری کام چلایا جاسکتا ہے تواضافی گاڑیوں کاکیا جواز بنتا ہے کیا ان وزراء اور مشیروںاور سرکاری ا فسران کو یہ نہیں معلوم کہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کیا ہے اور ایک مقروض ملک کو توچھوڑیئے ایک طرف خود ہمارا صوبہ کتنا مقروض ہے ‘ اور ایک تباہ حال معاشی صورتحال کاصوبے کی معیشت پر کیا منفی ا ثرات مرتب ہو رہے ہیں ‘ اتنی زیادہ تعداد میں سرکاری گاڑیوں کی اس بندر بانٹ کاجواز کیا ہے؟ اور عوام یہ جاننے کاحق رکھتے ہیں کہ کس قانون کے تحت ان کو اضافی گاڑیاں دی گئی ہیں سرکاری استعمال کے علاوہ ان کے خاندانوں کے لئے کیوں سرکاری جن پر پٹرول کی مد کے علاوہ ڈرائیوروں کی فوج ظفر موج کی تنخواہوں کے بے پناہ اخراجات کس کھاتے میں کئے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد و سخت آمد