پولیس پر پے درپے حملے

لکی مروت میں تھانہ صدر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پولیس لائنز سے روانہ ہونے والی کمک پارٹی بم حملے کا نشانہ بن گئی ۔ دہشت گردوں نے بنوں میانوالی شاہراہ کے مصروف لکی درہ تنگ سیکشن پر چوکی جنڈ کے قریب واقع تھانہ صدر پر جدید خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا، انہوں نے تھانے میں موجود پولیس جوانوں کو زیر کرنے کے لئے مختلف اطراف سے چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ ادھر پولیس لائنز سے روانہ ہونے والی کمک پارٹی پیر والا کے قریب سڑک کنارے نصب آئی ای ڈی کا نشانہ بن گئی ۔نگران وزیر اعلی محمد اعظم خان نے یقین دلایا کہ نگران صوبائی حکومت پولیس کو مستحکم کرنے، اس کی ضروریات پوری کرنے اور اسے دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی ہیئت تبدیل ہوگئی ہے اب پولیس کوتاک کرنشانہ بنایا جارہا ہے دم تحریر اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی پولیس تھانوں پر حملے کے واقعات میں یکسانیت بھی آگئی ہے پشاور میں تھانہ ریگی پرحملہ کیا گیا ‘ سربند میں تھانے کو نشانہ بنایا گیا اور اسی طرز پر اب لکی مروت کا واقعہ ہوا ہے جس میں کمک کے لئے آنے والی پارٹی کو منصوبہ بندی سے نشانہ بنایا گیا یہ دوسری مرتبہ ہے کہ دہشت گردوں نے پولیس کو ٹریپ کیا جسے سمجھنے اور آئندہ کے لئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ خدانخواستہ اس طرح کا کوئی اور واقعہ رونما نہ ہو ۔ لکی مروت کے علاقے میں آئے روز پیش آنے والے واقعات سے نمٹنے کے لئے اس کے آس پاس تطہیری آپریشن اور ان کے ممکنہ مقامی نیٹ ورک کو ختم کرنے پر کام ہونا چاہئے ۔ دہشت گردی کا تازہ بڑا واقعہ تھا نہ لکی مروت پررات گئے حملہ ہے ماضی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کایہ علاقہ سب سے زیادہ شکار اورمتاثرہ رہا ہے علاقہ دہشت گردوں کا آسان ہدف رہاہے جس کا تقاضا ہے کہ اس علاقے سمیت دیگر تمام مضافاتی علاقوں میں سکیورٹی کے اقدامات میں اضافہ کیا جائے اور خصوصی حفاظتی اقدامات کا ایک مضبوط حصار قائم کیا جائے اور یہ اتنا موثر ہونا چاہئے کہ دہشت گرد اسے توڑ کرحملہ آور نہ ہو سکیں۔ گزشتہ دور دہشت گردی اوردہشت گردی کی تازہ لہر میں ایک نمایاں فرق یہ آیا ہے کہ پہلے دہشت گرد خود کش حملے اور بارود سے بھری گاڑی تھانوں کی عمارت سے ٹکراتے تھے اورمضافاتی چوکیوں پر اچانک حملہ کرتے تھے مگراب تھانوں پر براہ راست حملہ آور ہو رہے ہیں مشکل امریہ ہے کہ دہشت گردوں کے پاس جدید ترین اسلحہ آگیا ہے اورپولیس کے پاس دہشت گردوں کامقابلہ کرنے کے لئے ضروری آلات اور جدید اسلحہ کی کمی ہے گزشتہ رات کے حملے میں بھی دہشت گردوں نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر پولیس کو باآسانی نشانہ بنایا ۔ حساس مقامات کے تھانوں اور مضافات کوحصار درحصار سکیورٹی کے انتظامات کرکے محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ مضافات کے تھانوں کواضافی عملے کی فراہمی ہونی چاہئے ان پے درپے واقعات کے طور پر پولیس کوجدید ترین اسلحہ اور خصوصی آلات کی فراہمی اور ان کے ماہرانہ استعمال کے لئے تربیت کی بھی ضرورت ہے ۔ یہ تجویز دیتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ خود پولیس کی بھی حفاظت کا انتظام ہونا چاہئے لیکن بہرحال پولیس کی حتی المقدور حفاظت کا بندوبست اور حفاظتی اقدامات کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے جس کاتقاضا ہے کہ تمام حساس مقامات کی دن رات نگرانی اور خصوصاً رات کے وقت مضبوط دفاعی پوزیشنوں پر مشاق نشانہ بازوں اور بھاری اسلحہ سے لیس عملے کی تعیناتی کی جائے پولیس کوفوری طورپر فرنٹیئر کانسٹیبلری کی کمک کی بھی ضرورت ہے۔ پولیس افسران اوراہلکارہمارے محافظ ہیں ان کی قربانیوںکی پوری قوم معترف ہے حالات کے پیش نظر مضافات میں تطہیری آپریشن میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے ۔ شہری اپنے اگرد گرد کے علاقوں اور خاص طور پرمشتبہ افراد کی ممکنہ آمدورفت پر نظررکھیں اور جس ذریعے سے بھی حکام تک اطلاع پہنچا سکیں اپنا قومی اور بطور شہری فریضہ سمجھتے ہوئے ایسا کرنے میں تساہل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا جائے پولیس اورحساس اداروں کی جانب سے عوامی سطح پراعتماد اورتعاون کے حصول پرخصوصی توجہ دینے اور اقدامات کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  مزید کون سا شعبہ رہ گیا ہے ؟