شہنشاہ جذبات محمد علی

شہنشاہ جذبات محمد علی اور شہنشاہ ظرافت عمر شریف

عمران یوسف زئی

آج کا دن پاکستان کی انٹرٹیمنٹ انڈسٹری کی تاریخ کا نہایت اہم دن ہے جب دو شاندار لیجنڈز نے دنیا میں آنکھ کھولی اور اس کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کا باعث بنے۔ شہنشاہ جذبات محمد علی 19 اپریل 1931 کو بھارت کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے اور 19 اپریل 1955 کو شہنشاہ ظرافت عمر شریف کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے۔ امام مسجد مولانا سید مرشد علی کے گھر پیدا ہونے والے دو بھائیوں اور دو بہنوں کے بعد پیدا ہونے والے محمد علی کے بارے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بڑے ہو کر اس بچے نے پاکستان کی فلم انڈسٹری پر راج کرنا ہے اور ان کا نام ایک دن ایشیا کے 25 عظیم ترین اداکاروں میں شامل ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد محمد علی کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی سات سال ملتان میں گزارنے کے بعد وہ حیدرآباد شفٹ ہوگئے۔ محمد علی کے بڑے بھائی ارشاد علی حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ بحیثیت اداکار منسلک تھے ان کے توسط سے محمد علی نے بھی ریڈیو جوائن کر لیا اور کچھ عرصے بعد پہلے ریڈیو پاکستان بہاولپور اور پھر کراچی آ گئے جہاں ان کے ڈی جی ذوالفقار علی بخاری ان کے فلمی کیریئر کے مینٹور بنے اور انہیں فلم پروڈیوسر فضل احمد کریم فاضلی سے متعارف کروایا یہیں سے ان کا فلمی سفر شروع ہوا جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ محمد علی نے 1962 میں پہلی فلم ”چراغ جلتا رہا” سے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کا پریمیئر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے 9 مارچ 1962 کو نشاط سینما میں کیا۔ اس کے بعد وہ منور رشید کی فلم بہادر، اقبال یوسف کی فلم دال میں کالا اور جاوید ہاشمی کی فلم دل نے تجھے مان لیا میں ولن کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ بحیثیت ہیرو ان کی پہلی فلم مسٹر ایکس تھی تاہم ان کی ایک اور فلم شرارت مسٹر ایکس سے پہلے ہی ریلیز ہو گئی۔ 1964 میں محمد علی لاہور منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے فلم خاندان میں کام کیا تاہم ان کی سب سے زیادہ ہٹ فلم ”خاموش رہو” تھی جس نے انہیں حقیقی پہچان دی۔ 1989 میں انہوں نے بھارتی فلم ”کلرک” میں بھی اداکاری کی۔ محمد علی 94 فلموں میں ہیروکے کردار میں جلوہ گر ہوئے۔ مرکزی کردار میں ان کی پہلی شرارت (1963) جبکہ آخری فلم آج کی رات (1983) تھی ان کے کیریئر کی آخری فلم دم مست قلندر (1995) تھی۔ محمد علی کے لئے زیادہ تر مہدی حسن نے پلے بیک سنگنگ کی ہے انہوں نے محمد علی کی 88 فلموں کے 115 گانے گائے ہیں۔ احمد رشدی نے محمد علی کے لئے 57 فلموں کے 100 گانے گائے جبکہ مسعود رانا نے ان کے لئے 23 فلموں کے 34 گانے گائے ہیں۔ ان کے علاوہ اخلاق احمد، غلام عباس، رجب علی اور مجیب عالم نے بھی محمد علی کے لئے پلے بیک سنگنگ کر رکھی ہے۔ محمد علی اپنی پہلی فلم چراغ جلتا رہا کے سیٹ پر زیبا سے ملے اور چار سال بعد دونوں نے 29 ستمبر 1966 کو شادی کر لی۔ محمد علی اور زیبا فلمی دنیا کی سب سے خوبصورت جوڑی تھی دونوں کی اولاد نہیں تھی تاہم محمد علی نے زیبا کی پہلی شادی سے ان کی بیٹی ثمینہ علی کو اپنایا اور اسے اپنا نام دیا۔ محمد علی نے سیاست کے میدان میں بھی قسمت آزمائی کی اور نواز شریف دور میں وزیر ثقافت بھی رہے۔ تھیلیسیما سے متاثرہ بچوں کے لئے 1995 میں انہوں نے ”علی زیب فاؤنڈیشن” کی بھی بنیاد رکھی۔ محمد علی کو بہترین اداکار کی حیثیت سے 8 مرتبہ نگار ایوارڈ جبکہ ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں 1984 میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ 19 مارچ 2006 کو وہ لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بات کی جائے اگر شہنشاہ ظرافت اور مزاح کے بے تاج بادشاہ عمر شریف کی تو کراچی کے چھوٹے سے علاقے لیاقت آباد میں ایک مہاجر فیملی میں آنکھ کھولنے والے عمر شریف نے صرف 14 کی عمر میں ہی سٹینڈ اپ کامیڈین کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کر دیا تھا پہلے پہل اپنے پسندیدہ مزاحیہ اداکار منور ظریف سے متاثر ہو کر انہوں نے عمر ظریف کے نام سے کام شروع کیا تاہم 1962 میں لارنس آف عریبیہ میں ہالی ووڈ اداکار عمر شریف سے متاثر ہو کر عمر شریف کے نام سے کام کا آغاز کیا۔ 1976 میں انہوں نے انگریزی ٹی وی سیریز سکس ڈالر مین سے متاثر ہو کر ”بائیونک سرونٹ” کے نام سے ٹی وی ڈرامہ لکھا جس میں پہلی بار معین اختر کے ساتھ ان کی جوڑی بنی۔ عمر شریف کو اصل شہرت ان کے اسٹیج شوز سے ملی جب وہ ان اسٹیج شوز کو ریکارڈ کر کے فلم ٹیپس (وی سی آر کیسٹس) کی صورت میں ریلیز کرتے تھے اور انہیں نہ صرف خریدا بلکہ کرائے پر بھی دیا جاتا تھا۔ انہوں نے 60 سے زائد اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایتکاری بھی کی۔ وہ ایک شاندار اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ہدایتکار اور رائٹر بھی تھے۔ ان کے مقبول ترین اسٹیج شوز میں بکرا قسطوں پر، بڈھا گھر پر ہے، یس سر عید نو سر عید سمیت بے شمار ڈرامے ہیں جو آج بھی لوگوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 2002 میں عمر شریف نے پہلی ٹی وی سیریل ”پردہ نہ اٹھاؤ” تحریر کی۔ 2009 میں انہوں نے ایک نجی انٹرٹینمنٹ چینل پر ”دی شریف شو” کے نام سے لیٹ نائٹ مزاحیہ کامیڈی شو کا آغاز کیا جس میں وہ مختلف اداکاروں، گلوکاروں، سیاستدانوں اور اہم شخصیات کے انٹرویوز کرتے تھے۔ ان کا ایک اور مقبول ٹی وی شو ”عمر شریف بمقابلہ عمر شریف” بھی تھا جس میں انہوں نے 400 مختلف کردار ادا کئے۔ عمر شریف بھارت کے سٹینڈاپ کامیڈی شو ”دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج” میں جج بھی رہے۔ 1986 میں انہوں نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور 1992 میں ان کی مسٹر 420 سپرہٹ فلم رہی اس فلم میں انہوں نے نہ صرف اداکاری کی بلکہ ہدایتکاری اور گلوکاری بھی کی اور تحریر بھی خود کی تھی۔ اس فلم نے انہیں بہترین اداکار اور بہترین ہدایتکار کے نگار ایوارڈز دلوائے۔ انہوں نے 35 فلموں میں کام کیا ان کی آخری فلم 1999 میں چاند بابو تھی۔ انہیں 10 نگار ایوارڈز ملے وہ واحد اداکار ہیں جنہیں ایک سال میں 4 نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ عمر شریف کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز بھی دیا گیا۔ سماجی خدمات کے لئے انہوں نے 2006 میں عمر شریف ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا۔ عمر شریف 2 اکتوبر 2021 کو پوری قوم کو سوگوار چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوئے۔