دارالعوام بمقابلہ عوام

قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کی طرف سے سٹیٹ بینک کو صوبائی انتخابات کے لئے فنڈز کی فراہمی کی ہدایت کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ایوان میں ایک سنسی خیز رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں الیکشن کو ناممکن اور تباہ کن ہی قرار دیا ہوگا جس کی بنیاد پر قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ جیسے بالادست اور شارح ِ آئین ادارے کی ہدایت کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا ۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس اقدام کے حق میں الف لیلیٰ کی وہی داستان سنائی جو عدلیہ کے سوموٹو نوٹس سے شروع ہوکر ججوں کے بینچ میں شرکت سے انکار او رججوںکے اعداد وشمار سے ہوتی ہوئی ایک شخص کو خوش کرنے کے لئے الیکشن کی تان پر آکر ختم ہوئی ۔اس الف لیلوی داستان میں سب کچھ تھا سوائے آئین پاکستان کے تقاضوں اور حوالوں کے کہ جن کے تحت نوے دن میں مرکز یا صوبوں میں انتخابات کرانا لازمی ہیں۔انتخابات جمہوریت کی کلید ہوتے ہیں اور پھر جب آئین بھی اس عمل کو ناگزیر قرا دے تو اس کی ناگزیریت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔آج جو صورت حال درپیش ہے اس کو پارلیمنٹ بمقابلہ عدلیہ کہا جاتا ہے اور عدلیہ کا وزن کم کرنے کے لئے اسے منقسم اور اقلیتی قراردیا جارہا ہے جبکہ پارلیمان کا اپنا حال یہ ہے کہ اس میں اکثریتی نشستیں خالی پڑی ہیں اور سب سے بڑی اور اپوزیشن جماعت اپنے بینچ خالی کر کے جا چکی ہے ۔پنجاب اور خیبر پختون خواہ اور سب سے بڑی شہر کراچی کے کروڑوں عوام کی نمائندگی ہی ایوان میں موجود نہیں ۔ایسا نامکمل ایوان پارلیمنٹ کی حقیقی تشریح پر پورا نہیں اُترتا ۔پھر اسی ایوان میں راجا ریاض جیسی مصنوعی اپوزیشن ہو تو اس کی اہمیت کچھ اور کم ہوجاتی ہے ۔اس ایوان کو بالادست کہنا یوں بھی درست نہیں کہ دنیا کے ان ممالک میں پارلیمنٹ کو سپریم کہا جاتا ہے جہاں تحریری آئین نہ ہو اور روایت سے کام چلایا جاتا ہو ۔جمہوری نظام کی ماں برطانیہ کا اگر پارلیمنٹ کو سپریم کہتا ہے تو بات بنتی ہے مگر جن ممالک میں تحریری دستور موجود ہوں ان میں دستور ہی بالادست ہوتا ہے ۔آئین ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جو ملک کے باشندوں اور ریاست کے درمیان ۔جس کے تحت ریاست کا نظام چلتا ہے ۔آئین کا تقدس نہ رہے تو ملکوں میں جنگل کا قانون نافذ ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے عدم استحکام اور انارکی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔آئین ایک مخصوص جغرافیائی حدود کے اندر بسنے والے لوگوں اورمختلف رنگ ونسل کی حامل قومیتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اور سماجی انصاف کا ضامن ہوتا ہے ۔اسی لئے اسے مقدس دستاویز کہا جاتا ہے۔بدقسمتی سے آج پاکستان کی حکومت نے اس عمرانی معاہدے کو عمران خانی معاہدہ سمجھ لیا اور عمران خان کا خوف چونکہ ان کے سروں پر سوا ر ہے اس لئے وہ آئین کو ہی کچھ عرصہ کے لئے طاق نسیاں میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔الیکشن کے لئے قائم کی گئی نگران حکومتوں کی میعاد بھی گزر رہی ہے مگر ان زائدالمیعاد حکومتوں سے ہی کام چلانے کی سوچ ہر طرف کارفرما ہے۔یہ ساری باتیں جنرل ضیاء الحق کی اس سوچ کو عمل جامہ پہنانے کی طرف جارہی ہیں کہ آئین کیا ہے بس چند صفحات کا مجموعہ ہی تو ہے ۔قومی اسمبلی پاکستانی عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے برطانیہ میں اس ہائوس آف کامنز یعنی عام لوگوں کاایوان کہا جاتا ہے جس کا ترجمہ دارالعوام کیا جاتا ہے ۔یوں پاکستان کی قومی اسمبلی دارالعوام ہے ۔یہ دنیا کا انوکھا دارالعوم ہے جو تشکیل تو عوام کے ووٹوں سے پایا ہے مگر اب وہ عوام کا سامنا کرنے سے نالاں او رگریزاں ہے۔اب اسے عوام کا سامنا کرنے میں حجاب اور جھجک ہے۔حالانکہ سال بھر پہلے یہی عوام تھے جن سے رجوع کرنے کے لئے دھرنے اور لانگ مارچ کئے جا رہے تھے اور یہی وہ آئین تھا جس کی حرمت کے گیت اور تقدس کے نغمے مہنگائی مارچوں میں بلند کئے جاتے تھے اور حد تو یہ کہ یہی وہ مہنگائی تھی جسے حکمرانوں کی نااہلیوں او ربے تدبیریوں کا شاخسانہ قرار دے کر کہا جاتا تھا کہ تمھار ا دل پٹرول کی قیمتیں بڑھاتے ہوئے دھڑکا نہیں ہاتھ لرزے نہیں ۔اب وہی مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے نہ دل لزرتا ہے نہ ہاتھ کانپتے ہیں نہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے بدن میں جھر جھری آتی ہے ۔دلچسپ وعجیب بات تو یہ کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا فرمان ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔حد ہوگئی سال بھر پہلے تو پٹرول کی قیمتوں کا حکومت سے گہرا اوربراہ راست تعلق ہوتا تھا جبھی تو پٹرول گیس کی قیمتیں بڑھنے پر حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ کئے جاتے تھے اور اب ایسا کیا ہوا کہ حکومت اور پٹرول کی قیمتوں کی آپس میں لاتعلقی ہوگئی ۔حکمران عوام کے حافظے کا امتحان لے رہے ہیں اور اس بات سے بے خبر ہیں کہ پاکستان کے عوام اب پرانے سٹیریو ٹائپ افسانوں اور بیانیوں پر یقین نہیں کرتے وقت حالات اور آئے روز کے چرکوں اور دھوکوں نے انہیں باشعور بنادیا ۔اب ابلاغ اور اطلاع ان کے ہاتھ میں تھامے ہوئے موبائل میں سمٹ کر آئی ہے اور وہ اپنے ملک اور مقدر کا موازنہ دنیا کے دوسرے ملکوں او رعوام سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔یہ لوگ مصنوعی دلائل کے مٹی کے گھروندوں سے بہلنے والے نہیں ۔عوامی شعور کا یہ جن اب دارالعوام کو عوام سے بھاگنے پر مجبور کر رہا ہے ۔عوام پیچھے پیچھے ہیں اور دارالعوام قراردادوں اور دلائل کے ساتھ آگے آگے بھاگتا جا رہا ہے ۔اس عمل میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے ۔عدلیہ جیسے معتبر اور محترم اداروں کی ساکھ مجروح ہوتی اور دوسرے لفظوں میں قانون کی حکمرانی کا تصور مزید دھندلا جاتا ہے۔اب تو حکمرانوں نے پارلیمان کے اندر سے عدلیہ کو کھلی دھمکیاں دینا شروع کی ہیں ۔جاوید لطیف نے نوازشریف کے بغیر ہونے والے انتخابات میںخونیں لکیر کھینچنے کی بات کر رہے ہیں۔جس کا مطلب خون خرابا ہے۔پی ڈی ایم نے اپنی حکومت کے ذریعے اپنی ہی صورت جس طرح بگاڑ دی ہے اس میں خون خرابے کا دم خم نہیں۔کئی دوسرے وزار ء بھی انقلاب کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ کس قدر عجیب معاملہ ہے کہ مہنگائی اور بے تدبیری کے باعث جو لوگ خود عوامی انقلاب اور غیض وغضب کے نشانے اور دہانے پر ہیں وہ کسی اور کو خونیں انقلاب کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔اسے کوئی کیا سمجھے بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں