خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

یہ جو ان دنوں ملکی سیاست میں جماعت اسلامی فیکٹر بہتے فعال دکھائی دے رہا ہے اور جماعت کی ایک ٹیم سیاسی ہم آہنگی کے لئے سرگرم ہو کر کبھی ایک جماعت اور کی دوسری جماعت کے ساتھ موجودہ بحران کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اصولی طور پر اسے اچھے کاوش قرار دینے میں اگر یہ کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے ‘ مگر حالات کے تانے بانے جس جانب اشارے کر رہے ہیں ان میں ایسانہیں لگتا کہ یہ بیل کسی منڈھے چڑھ سکے گی’ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کے سیاسی مفاہمت کے حوالے سے اگر ایک جانب تحریک انصاف کے بیانیہ میں بعد المشرقین کی نشاندہی ہو رہی ہے اور نہ صرف فواد چوہدری کے بیانات روایتی ہٹ دھرمی کا مظہر ہیں، تحریک کے سنگی ساتھی شیخ رشیدکا بیان سراج الحق کی نیت پر شکوک کے اظہار سے مملو ہے ، جبکہ دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعتوں کے اندربھی مذاکرات کے حوالے سے اب اختلافات کھل کر سامنے اگئے ہیں ‘یعنی مولانا فضل الرحمن اپنے بالکل اسی قسم کے سخت موقف کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہوئے عمران خان کے حوالے سے ان کو ناقابل اعتبار شخص قرار دے رہے ہیں جیسا کہ عمران خان کے بیانات بھی ان کے روایتی موقف کے مظہر دکھائی دے رہے ہیں اور وہ ”ڈاکوئوں، چوروں ”کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر کے اپنی ٹیم کے ساتھ بہ امرمجبوری آگے بڑھا رہے ہیں، اس کے بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک سیدھا سیدھا مطلب کچھ اور ہے کہ اگر بہ فرض محال مذاکرات کسی کروٹ بیٹھ بھی جاتے ہیں تو عمران خان کی جانب سے انہیں تسلیم کرنے کی ضمانت کون دے گا ،(تحریک کے متعلقہ مذاکرات کار مبینہ طور پر اپنے ہاتھ کھڑے کرچکے ہیں’ اور دوسرا نظریہ مبینہ طور پر یہ ہے کہ عمران خان ان مذاکرات کی آڑ میں اپنے خلاف مقدمات کے خاتمے اور دوسری مراعات کا حصول چاہتے ہیں۔’ اس لئے ان مذاکرات کی کا میابی پرشروع ہونے سے پہلے ہی”ناکامی”کے سائے لہراتے نظر آرہے ہیں گویا جوابی موقف کے حوالے سے پہلے ہی سے معلوم نتیجے کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
رہ گیا حکومتی اتحادی جماعتوں کے اندر اس حوالے سے پیدا ہونے والا” اختلاف”تو اس حوالے سے مولانا صاحب اور پیپلز پارٹی کے موقف میں جس دراڑ کی نشاندہی ہو رہی ہے اگرچہ ایک اور خبر وزیر اعظم شہباز شریف کے حوالے سے یہ بھی سامنے آچکی ہے کہ وہ غیر مشروط مذا کر ات کے حامی نہیں لیکن مقطع میں سخن گسترانہ بات تحریک انصاف کی جانب سے پیشگی شرائط لگانے کی ہے، تحریک کے حلقوں کی جانب سے مذاکراتی شرائط سے جماعت اسلامی کی کاوشیں کہاں تک کامیاب ہو سکتی ہیں کہ دونوں جانب کی”مجبوریاں” کیا رنگ دکھا سکتی ہیں اس پر مرحوم پروفیسر طہٰ خان کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے
ہم دونوں کا پیار تھا سچا ‘ دونوں بچوں والے تھے
اس کا اپنا”مجبورا” تھا میری اپنی”مجبوری ”
بھارت کی سول سوسائٹی کی جانب سے پشاور میں سکھ تاجر کے قتل پر اظہار تشویش اور احتجاج کی خبریں وائرل ہوئی ہیں ‘ اور پاکستان میں اقلیتی باشندوں کے مسلسل قتل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے دیال سنگھ کے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے ‘ اس میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرنے اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر اقلیتوں کے قتل کے واقعات کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے ‘ بھارتی سول سوسائٹی نے بھارتی ہائی کمیشن اسلام آباد کے ذریعے اقلیتی باشندوں کے مسلسل قتل پر اپنے تشویش سے آگاہ کیا جہاں تک اقلیتوں کے قتل کا تعلق ہے تو اس حوالے سے صرف بھارتی سول سوسائٹی ہی کو تشویش لاحق نہیں ہے خود پاکستان کے اندر بھی ماضی میں اس قسم کے واقعات پر پاکستان کے عوام نے ہمیشہ تشویش کا اظہار کیا ہے اور جہاں تک ممکن ہوسکا اقلیتی برادری کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے ‘ کہ بحیثیت مسلمان اسلام کی تعلیمات ہمیں یہی سبق سکھاتی ہیں کہ کسی بے گناہ کو بلاوجہ قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے یعنی بقول شاعر
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اس لئے مذکورہ سکھ شہری کے قتل پر بھی پشاو رکی سول سوسائٹی نے عمومی طور پر بلکہ ملک بھر میں اس حوالے سے ہمدردانہ رویئے کا اظہار کیاگیابلکہ سرکاری سطح پراس حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات بھی جاری ہیں جن کو یقینا منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا تاہم کیااس موقع پر ہم بھارتی سول سوسائٹی کو اپنے گریبان میں جھانکنے اور بھارت کے طول وعرض میں وہاں کے اقلیتی برادریوں کے ساتھ گزشتہ 70 سال سے روا رکھے جاے والے سلوک کی طرف توجہ دلانے کی بات کر سکتے ہیں؟؟؟ بھارت کے اندر ابتداء ہی میں مسلمانوں کے خلاف جو معاندانہ رویہ اختیار کیاگیا اور باوجود تب پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں کانگریس کی”بظاہر” غیر جانبدار حکومت قائم تھی’ اس وقت بھارتی پولیس کی پشت پناہی سے منظم طور پرمسلم کش فسادات کئے جاتے تھے ‘ بعد میں یہ سلسلہ خود بھارتی چھوٹی جاکی یعنی دلتوں اور پھرعیسائیوں تک پھیلتا چلاگیا جبکہ سکھوں نے اس غیر انسانی رویئے کو دیکھا توان کے اندر بھی ”علیحدگی” کے جراثیم” پیدا ہونا شروع ہوئے ‘ جو رفتہ رفتہ فطرات کوچھونے لگے تو اندراگاندھی نے دربار صاحب(گولڈن ٹمپل) پر فوج کشی کرکے سکھوں کے قتل عام سے بھارت کی”غیرجانبداری”کو داغدار کیا ‘ اس کے نتائج بالآخر سنت جرنیل سنگھ کے قتل ناحق کے بدلے کے طور پراندرا گاندھی کے قتل پرمنتج ہوئے ‘ اور اب تو ایک جانب سکھ برادری کی جانب سے عالمی سطح پر آزاد خالصتان کی تحریک زور پکڑ چکی ہے برطانیہ ‘کینیڈا اورکچھ دیگر ممالک میں سکھ کمیونٹی کی جانب سے آزاد خالصتان کے حق میں ریفرنڈم کے ذریعے اقوام متحدہ کو یہ احساس دلانا ہے کہ سکھ کمیونٹی مزید بھارت کے ساتھ نہیں رہ سکتی ‘ جبکہ دوسری جانب ہندو توا کے پیروکار ‘ آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں بھارت کی غیر جانبداری کو بٹہ لگانے والی بی جے پی کی سرکار کھلم کھلا ملک کو ہندو ریاست میں تبدیل کرکے اقلیتوں پر جومظالم ڈھا رہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ‘ مگر بھارت کی سول سوسائٹی کو بی جے پی کی اقلیت دشمنی نظر نہیں آتی ‘ یعنی تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی بنیڑتو ‘ کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ عمومی طورپر (اکادکا واقعات کوچھوڑ کر) جو ہمدردانہ اور برادرانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کے سب معترف ہیں ‘ اس لئے بھارت کی سول سوسائٹی سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
آپ ہی اپنی ادائوں پر ذراغور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

مزید پڑھیں:  ایک آزاد پرندہ ہوں جہاں چاہوں اڑوں