اب اظہار ندامت کا کیا فائدہ؟

وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیرقانون اعظم نذیرتارڑکے اس دعوے کی بھی تصدیق کی ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمرجاویدباجوہ کے دبائوپرہوئی تھی۔ نجی ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ججز کی تقرری میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار سے متعلق بیان کو بھی درست قرار دیا ااور کہا کہ حکومت سے کہا گیا تھا کہ دو ججز کی تعیناتی مان کر عدلیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں لیکن اس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ بہت نقصان ہوا۔حالیہ سیاسی قضیہ میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں او رکردار کوجسطرح موضوع بحث بنایاگیا ایسا نہ ہوتا توبہتر تھا بہرحال عدالتی فیصلوں سے جو ہلچل رہی اور بعض ججوں کی عجلت بھی اپنی جگہ قابل ذکر امرتھا لیکن دوسری جانب جولوگ عدلیہ سے محاذ آرائی اور تنقید میں پیش پیش تھے سچ ان کی زبان سے بھی نکلا اور انہوں نے بیک وقت دبائو کا شکار ہونے دبائو قبول کرنے اور پھراس دبائو کے نتیجے میں فیصلے کے ثمرات پر جونظریں جا رکھی تھیں اس کے اظہار سے ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز والا معاملہ واضح ہے اگرچہ دبائو ہی میں ایک ناپسندیدہ اور نامناسب امرسے بامر مجبوری ہی اتفاق کرنا پڑا لیکن اس سے فوائد سمیٹنے کی امید کی انصاف اور آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی بدقسمتی سے اس طرح کی تقرریاں اور پھر ان کا تقرر کرنے والوں کی ان سے توقعات قسم کے معاملات اعلیٰ عدالتوں کی توقیر کو آلودہ کرنے کا باعث بننے والے امر ہیںجس سے جب تک احتراز نہیں ہوگا اور سفارش ودبائو پرتعیناتیاں ہوں گی عدالتی معاملات پر تنقید بھی ہوگی اور فیصلوں پرجانبداری کے ا لزامات کا بھی اعادہ ہو گا اسٹیبلشمنٹ تو کسی حد تک سیاسی معاملات سے کنارہ کش ہوچکی ہے مگر اب عدلیہ سے کام لینے کا جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے ایسا تبھی ممکن ہوگا کہ جب ججوں کی تقرری میں پوری طرح میرٹ کا خیال رکھا جائے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی حکومت نے ہاتھوں سے گرہ باندھنے کی جو غلطی کی تھی اب اسے دانتوں سے کھولنے کی جدوجہد میں ہے بہتر ہوگا کہ آئندہ تقرریوں میں دبائو اور دبائو میں آنے کا سلسلہ بھی ختم ہوگا اور عدلیہ کے وقار کا خیال رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت