سیاست نہ ہوئی بازیچہ اطفال ہوا ؟

ویسٹ انڈیز کرکٹ کے مایہ ناز کرکٹر اور کپتان کلائیو لائیڈ نے ایک دفعہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ” پاکستانی ٹیم دنیا کی عجیب ترین ٹیم ہے پوری ٹیم صفر پر آئوٹ ہو سکتی ہے یہ ٹیم ورلڈ چیمپئین بھی بن سکتی ہے، شکر ہے کہ ہماری ٹیم کبھی صفر پر تو آئوٹ نہ ہوئی لیکن ورلڈ چیمپئین بہر حال بن گئی، کلائیولائیڈ کی یہ بات پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے پیش نظر یاد آئی۔
میرا ایک دوست اس تناظر میں کہتا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد اور عجیب ملک ہے کہ یہاں بعض ناممکن دکھائی دینے والے کام بلکہ کارنامے سر انجام پاتے ہیں اور بعض ممکن، ہر لحاظ سے جائز ، آسان العمل اور آئین و دستور کے مطابق کام نا ممکن بن کر پایہ تکمیل کو پہنچ نہیں پاتے، اس حوالے سے دیکھئے کہ قیام پاکستان ہر لحاظ سے مسلمانان ہند کا حق تھا لیکن ظاہری طور پر ساری مقتدر قوتیں قیام پاکستان کے خلاف تھیں، انگریز’ہند و پالیسی ساز اور مسلمان قوم پرست سب قائداعظم محمد علی جناح کے خلاف اکٹھے تھے اسی بناء پر قیام پاکستان بہت مشکل کام نظر آرہا تھا لیکن ملاحظہ کیجئے کہ1930ء میں علامہ اقبال کے خطبات آلہ آباد اور قرار داد پاکستان کے درمیان صرف دس برس کا فاصلہ ہے اور پھر 1940ء میں قرار داد پاکستان اور 1947ء میں قیام پاکستان کے درمیان صرف سات برس کی مدت حائل رہی، قیام پاکستان بیسویں صدی میں اسلامی تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ اور اللہ تعالیٰ کا معجزہ تھا، لیکن پھر تصور کیجئے کہ اس عظیم ملک کے لئے ابتدائی دس برسوں تک آئین و دستور تشکیل نہ پاسکا کیونکہ بانی پاکستان اور ان کے قریبی رفقاء بہت جلد اس دنیا سے یا سیاست سے رخصت ہوئے اور پھر پاکستان کے ایک قابل بلکہ جینئس جج، جسٹس منیر نے 1954ء میں ” نظریہ ضرورت” متعارف کروایا جس نے پاکستان کو اس کے ابتدائی دنوں میںسیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کی طرف دھکیل دیا، آج پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اگر جسٹس منیر نے ”نظریہ ضرورت ”متعارف نہ کرایا ہوتا تو آج ملک کی تاریخ مختلف ہوتی، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس بات پر بھی اتفاق پایا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کے بیچ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے مطابق فیصلوں نے بودیئے تھے۔
جسٹس منیر کے متنازع نظریہ ضرورت کے تحت مولوی تمیز الدین کی درخواست پر فیصلہ سنا کر پاکستان کی سیاسیات اور عدلیہ کی تاریخ کو بری طرح محروم کر کے رکھ دیا گیا، اس فیصلے کے دور رس اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ نے پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کو صوبائی انتخابات میں شکست فاش سے دو چار کردیا اور یوں انہوں نے مرکزی اسمبلی کے انتخابات کا مطالبہ بھی کردیا’ اور بالکل آج کی سیاسی صورتحال کی طرح مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کا حشر دیکھ کر مسلم لیگ نئے انتخابات سے خوفزدہ ہو گئی، اسے بالکل آج کی مسلم لیگ نون کی طرح ڈر تھا کہ اگر کہیں انتخابات کرا دیئے گئے تو اس کے پلے کچھ نہیں رہے گا۔
دوسری طرف گورنر جنرل غلام محمد نے جب دیکھا کہ اسمبلی نے اس کے اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کی برخواستگی کے اختیارات سلپ کر لئے تو اس نے اسمبلی اور حکومت کو اس کا جواب 23 دن کے بعد ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر کے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر کے دیا، ان مشکل سیاسی اور اقتصادی حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ چوبیس برس میں ملک دولخت ہوا تو اللہ تعالیٰ نے دیار غیر میں مقیم ایک عظیم پاکستانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ باقی ماندہ پاکستان کو ہندوستان جیسے متعصب اور تنگ نظر ہمسائے کی طلع آزمائیوں سے محفوظ بنایا جائے کوئی تصور کرسکتا ہے کہ وہ پاکستان جس میں آج بھی نہ گیس نہ بجلی اور نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے’ اس میں ایٹم بم کی تخلیق اتنی مختصر مدت میں ممکن ہوسکتی ہے؟ الحمد للہ آج پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے لیکن اس کے باوجود دیکھئے کہ گیس’ بجلی’ پانی اور اب آٹے کے بحران نے آج بھی پاکستانی قوم کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے، لیکن شکر ہے کہ بھارت اپنے مذموم عزائم پر عمل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، یہ ہے کہ پاکستان کی وہ جہتیں’ جن کا ذکر کالم کی ابتداء کلائیو لائیڈ کی بات سے کیا ہے۔
اب اس وقت کے حالات اور ہمارے سیاستدانوں کا طرز عمل ملاحظہ کیجئے کہ ملک انتہائی معاشی بحران میں مبتلا ہے’ برآمدات برائے نام’ باہر سے رقوم کی آمد میں کمی’ کارخانے اور صنعتیں ڈالر کے فقدان کے سبب بند ہو رہی ہیں’ بندر گاہوں پر مال پڑا سڑ رہا ہے لیکن ڈالر کے نہ ہونے کے سبب ملک کے اندر لایا نہیں جا سکتا جس کے سبب شدید بے روزگاری ہے اور غربت ہے کہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں آئی ایم ایف نے اس انداز میں اپنی ایسی شرائط کہ پاکستانیوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے، کبھی تسلیم نہیں کرا سکی تھی لیکن آج ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کے حصول کیلئے اس کی منت سماجت کے علاوہ دوست ممالک کی خوش آمدیں بھی کرنا پڑ رہی ہیں’ ان تمام برے حالات کے باوجود ہمارے ”زعمائ” کو صرف اور صرف سیاست کی پڑی ہے’ وہ آئین پاکستان جس پر ہم سب بالعموم اور پی پی پی بالخصوص پھولے نہیں سماتی’ اس وقت عمل درآمد کی راہیں تک رہا ہے، قومی اسمبلی میں سیاستدان وہ وہ کام سر انجام دے رہے ہیں جس سے ایک ایسی تاریخ وجود میں آرہی ہے جس کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی، کیا یہ بھی کوئی بات ہے کہ وزارت خزانہ کے پاس21 ارب روپے نہیں ہیں، سپریم کورٹ جیسا ادارہ مجبور ہو کر سٹیٹ بینک کو حکم دے رہا ہے کہ رقم فراہم کرے لیکن سٹیٹ بینک بے چارہ سیاستدانوں کی اس دھمکی کے خوف سے کہ اگر کسی نے الیکشن کمیشن کو اکیس ارب روپے فراہم کئے تو بعد میں ان سے شاید پوری زندگی اس کی ادائیگی کرنے میں گزرے، لہٰذا وہاں سے بھی آئیں بائیں شائیں کا جواب داخل کرنا پڑا۔
طرفہ تماشا دیکھئے کہ سیکرٹری دفاع کے پاس انتخابات میں امن عامہ برقرار رکھنے کے لئے افرادی قوت نہیں کیوں کہ کچے میں آپریشن جاری ہے حالانکہ کچے کے بدمعاش کوئی آج سامنے نہیں آئے تھے بلکہ وہ تو کب سے بدمعاشیاں کر رہے ہیں اور ان سے انتخابات کے بعد نمٹا جاسکتا تھا، اس کے علاوہ آئین کی اتنی واضح شق کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے دن کے اندر انتخابات ہونا ضروری ہیں لیکن اس کو سیاستدانوں نے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے والا معمہ بنا کر رکھ دیا ہے، سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے صاف اور واضح الفاظ میں فیصلہ دیا ہے کہ چودہ مئی کو انتخابات کروائیں لیکن وزیر داخلہ کے بیانات سنیں’ کیا دنیا کے کسی اور جمہوری اور آئینی ملک میں ایسا ممکن ہے کہ عدالت عالیہ کو دھمکیاں دی جا رہی ہوں کہ تم ملک میں آئین کے مطابق انتخابات کروانے پر کیوں تلے ہوئے ہو’ تم کوئی نظریہ ضرورت کیوں تلاش نہیں کرتے’ تم جسٹس منیر کے کیس سے استفادہ کیوں نہیں کرتے’ کیا اتنی بے نظیر پارلیمنٹ دوبارہ کبھی پاکستان کو میسر آسکے گی جس نے ملک کو اتحاد، نظم و یقین محکم کا سبق یاد کرا دیا ہے’ ایک پاگل و سرپھرا دیوانہ پارلیمنٹ سے باہر سے توکیا ہوا’ دو اسمبلیاں اس نے اپنی دیوانگی کی نذر کر دیں توکیا’ کیا پنجاب اور پختونخوا میں کاروبار زندگی رک گیا ہے’ واللہ تاریخ پاکستان میں ایسی نابغہ روزگار نگران حکومتیں پھر شاید ہی کہیں میسر آئیں، اس سے پہلے کی بھی نگران حکومتیں گزری ہیں کہ کسی16 گریڈ کے افسر کی تبدیلی کا حق و طاقت نہیں رکھتی تھیں، اب کی نگران حکومتیں وہ کون سا کام ہے جو نہیں کر سکتیں، سوائے انتخابات کے’ دفع کرو انتخابات کو ‘ اس کے نتیجے میں اگر کہیں عوام کی نمائندہ حکومت وجود میں آئی او وہ بھی دو تہائی کے ساتھ ‘ تو پھر کیا ہوگا؟ اگر اسمبلی میں ایسی قانون سازی ہوئی کہ آئین میں صاف لکھا ہے کہ حاکمیت اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات کی ہے اور عوام اقتدار کا سرچشمہ ہیں’ سب پاکستانی سماجی عدل و ا نصاف کے مطابق برابر کے حقوق کے مستحق ہیں’ کوئی اونچ نیچ’ ہٹو بچو ‘ ہوشیار خبردار والا نظام نہیں چلے گا تو پھر ہمارے سرداروں’ وڈیروں’ خوانین اور سرمایہ داروں کا گزر چلن کیسے ہو گا لہٰذا لائو کوئی جسٹس منیر’ کہ موجودہ نادر و نایاب سیٹ اپ کے ذریعے گلشن کا کاروبار چلانے دیں لیکن میرے خیال میں عدالت عالیہ کی اپنے فیصلے سے واپسی ناممکن ہے کیونکہ ان سارے فاضل ججوں کو جسٹس منیر کا حال معلوم ہے جس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اعتراف کیا تھا کہ ان کا یہ ”نظریہ ضرورت” کا فیصلہ دبائو کا نتیجہ تھا اور یوں جسٹس منیر پاکستان کی عدلیہ اور پاکستانی تاریخ کے ولن کے طور مشہور ہوئے اور تاریخ کبھی ایسے کرداروں کو معاف نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب