کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں وزارت دفاع کی جانب سے ملک میں عام انتخابات ایک ساتھ کروانے کے حوالے سے دائر درخواست کے ہمراہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن کے حوالے سے عدالتی احکامات پر عملدرآمد اور دیگر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور ایک معزز رکن بنچ کے ابتدائی ریمارکس کو حتمی فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ان ریمارکس سے یہ امر مزید دوچند ہوجاتا ہے کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان معاملات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جا رہے ہیں، چیف جسٹس نے بدھ کی دوپہر سماعت کے آغاز پر کہا عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن کو21 ارب روپے جاری نہ کرنے کے معاملے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، بنچ کے ایک اور رکن جج نے قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن اخراجات کے لئے رقم کے اجرا کی منظوری نہ دینے کے معاملے کو وزیراعظم پر عدم اعتماد کے تناظر میں دیکھتے ہوئے جو ریمارکس دیئے ان سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات کس طرف بڑھ رہے ہیں، ابتدائی سماعت میں جہاں وزارت دفاع کی درخواست کو ناقابل عمل قرار دیا گیا وہیں چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے معاملے پر اتفاق رائے کرلیں تو درمیانی راستہ نکال لیں گے، اس المیہ سے صرف نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ایسے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی گئی جو متعلقہ بنچ میں زیرسماعت ہی نہیں تھا، بعدازاں ازخود نوٹس لینے اور مرحلہ وار سماعتوں کے دوران اٹھائے جانے والے آئینی سوالات کو نظرانداز کر کے دیئے جانے والے فیصلے سے جو عدالتی بحران پیدا ہوا اور جس طرح بنچز کے ایک دوسرے کے خلاف فیصلے آئے اس سے بھی صرف نظر ممکن نہیں، بظاہر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لئے جانے کے خلاف جسٹس فائز والے بنچ کے فیصلے کو پہلے اپنے تین رکنی بنچ کے فیصلے میں رد کیا پھر ہنگامی طور پر 6 رکنی بنچ بنوا کر ایک نیا فیصلہ کروایا گیا اسی عرصہ میں جسٹس فائز والے بنچ کے فیصلے کے عدم اطلاق پر انتظامی سرکلر بھی جاری کروادیا گیا، پچھلے ڈیڑھ ماہ سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے خود عدالتی قواعد و ضوابط جس طرح نظرانداز ہوئے اور جس طرح صوبائی ہائیکورٹس میں زیرسماعت امور پر فیصلوں کا انتظار کئے بغیر سپریم کورٹ میں معاملہ لے جایا گیا اس پر سوالات بھی ہیں اور اعتراضات بھی۔ وفاقی حکومت اور وزیر قانون کا موقف ہے کہ ازخود نوٹس والے کیس کا فیصلہ تین دو سے نہیں بلکہ چار تین سے ہے، اس طور حکومت کیسے ایک ایسے فیصلے کو مان لے جو خود ججز کی اکثریت کے فیصلوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو، ہر گزرنے والے دن کے ساتھ جو ماحول بن رہا ہے اس سے خیر کی توقع عبث ہے، اسی اثناء میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ازخود نوٹس کے اختیار کے حوالے سے اہم سوال اٹھانے کے ساتھ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے بعض فیصلوں سے ہوئے سماجی، سیاسی، معاشی نقصانات سمیت اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ سقوط مشرقی پاکستان کی بنیاد جسٹس منیر کے فیصلے نے رکھی، جسٹس قاضی کے بقول آئین کا آرٹیکل184/3 محکوم و بے نوا لوگوں کی داد رسی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے یہ اختیار(ازخود نوٹس) کسی ایک جج یا چیف جسٹس کے لئے نہیں، قاضی فائز عیسیٰ اس تین رکنی بنچ کے سربراہ تھے جس نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے دو ججز کی جانب سے ازخود نوٹس کی سفارش اور نوٹس لئے جانے کو غیرقانونی قرار دیا تھا، اس فیصلے کے بعد مرحلہ وار جو اقدامات ہوئے ان سے عدلیہ بھی اس سیاسی بحران کا ایک فریق بن گئی جو دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے پیدا ہوا تھا، قانونی ماہرین کا ایک بڑا طبقہ اس رائے کو درست قرار دیتا ہے کہ جو معاملہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت تھا اس پر ازخود نوٹس اختیارات سے تجاوز کے ساتھ سیاسی خواہشات کا عملی نمونہ ہے اس رائے سے کلی یا جزوی اختلاف و اتفاق سے قطع نظر یہ عرض کرنا درست ہوگا کہ بعض حالیہ فیصلوں، بنچوں کی تشکیل اور چند دیگر امور پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حوالے سے رائے عامہ جس طرح تقسیم ہوئی سنجیدہ حلقوں اور خود عدالت کو بھی اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے، آئین و قانون پر سیدھے سبھائو عمل کرانا یقیناً عدالت کا اختیار ہے لیکن دوسرے ادارے کے اختیارات کو استعمال کرکے احکامات جاری کرنے سے مسائل جنم لیتے ہیں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لئے بعض قانونی حلقوں کے نزدیک دستور و قانونی روایات پامال کی جا رہی ہیں اسی صوبے کی ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا کہ عدالتی عملہ انتخابات کے لئے فراہم کرنا مشکل ہے کیونکہ صوبے کی عدالتوں میں سوا تین لاکھ مقدمات زیرالتوا ہیں، دوسرا سوال یہ اٹھایا گیا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیتے وقت ازخود نوٹس کی بنیاد کو مدنظر کیوں نہیں رکھا، ازخود نوٹس تو دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے لیا گیا تھا، فیصلہ ایک صوبائی اسمبلی کے 90 دن میں انتخابات کرانے کی دستوری پابندی کی بنیاد پر دیا گیا، کیا دستوری پابندی کا اطلاق خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات پر نہیں ہوتا تھا؟ امر واقعہ یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے بڑھاوے کی وجوہات میں سے حالیہ چند عدالتی فیصلوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے اب ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں انصاف اور پارلیمان میں دستور کے معاملات سے زیادہ دو متحارب قوتوں میں جنگ جاری ہے، سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لئے الگ سے دستوری بنچ کا نہ ہونا یا وفاقی دستوری عدالت کے قیام کی افادیت کو تسلیم نہ کئے جانے سے ہی یہ سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں عوام الناس کے مختلف الخیال طبقات میں سیاسی عدم استحکام اور عدالتی بحران کی وجہ سے حالیہ عرصہ میں جو دوریاں پیدا ہوئیں اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں یہ غالباً کسی کے بھی پیش نظر نہیں سب اپنے حکم اور قرارداد کو حرف آخر سمجھ کر ڈٹا ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے فنڈز موصول نہ ہونے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کروائی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ایک ساتھ الیکشن نہ ہوئے تو خطرہ ہے کہ جن صوبوں یا ایک صوبے کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن پہلے کرا دیئے جائیں گے وہاں قومی اسمبلی کے انتخابات کے مرحلہ میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے، بالفرض اگر الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے اس نکتہ کو نظرانداز کر بھی دیا جائے تو اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ جن یا جس صوبے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی صورت میں حکومت قائم ہوچکی ہوگی وہ آزادانہ انتخابات پر اثرانداز نہیں ہوگی؟ اسی طرح اس امر پر توجہ دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ کسی بھی حتمی فیصلے سے قبل اولا عدالتی بحران کے اثرات کو دور کیا جائے اور ثانیا ان قانونی نکات کی تفصیل کے ساتھ وضاحت جو کسی ایک بنچ کو دوسرے بنچ کا فیصلہ کسی سماعت کے بغیر یا الگ سے کسی معاملے کی سماعت کے دوران محض یہ کہہ کر ختم کردے کہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔ ہماری رائے میں موجودہ حالات میں معرکہ پنجاب کا تاثر دینے اور آئینی امور پر سیاسی جنگ و جدل میں فریق بننے کی بجائے حقیقت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنے منصب کی بدولت چوبیس کروڑ شہریوں کیلئے قابل احترام ہیں اسی طرح منتخب پارلیمان کی دستوری حیثیت اور عوامی تائید پر بھی دو آرا ہرگز نہیں۔ ادارے مشکل حالات میں بہتری کی گنجائش نکالنے کے لئے ہوتے ہیں پانی پت کے نئے معرکوں کی بنیاد رکھنے کے لئے نہیں۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ شخصی انا کو ایک طرف رکھ کر آئین اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج