آزادکشمیر میں پی ٹی آئی حکومت کا بحران

آزاد کشمیر کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی حکومت کی نائو اپنے داخلی اختلاف اور بحران کی خودسر اور تند موجوں میں ہچکولے کھا رہی ہے، یہ نائو ان موجوں سے بچ نکلتی ہے یا انہی کی نذر ہو کر تاریخ کا قصہ بنتی ہے اس کے انتظار کے لئے اب زیادہ وقت درکار نہیں، اب تک کی صورت حال میں پی ٹی آئی دو واضح دھڑوں میں بٹ چکی ہے، کونسل کے انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ حکمران جماعت تین دھڑوں میں منقسم ہو رہی ہے، انیس بیس کے فرق کے ساتھ یہی حال مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا بھی دکھائی دے رہا ہے جن میں دھڑے بندی پورے زروں پر ہے اور ہر دھڑا مخالف جماعت کی حکومت قبول کرنے پر تیار ہے مگر پارٹی کے اندر کی مخالف لابی کو قبول کرنے پر تیار نہیں، اس رویہ سے آزادکشمیر کی سیاست بے توقیر ہو رہی ہے، عام آدمی کا سیاست پر پہلے ہی کوئی زیادہ اعتما دنہیں رہا مگر اس کیفیت سے رہا سہا بھرم بھی ختم ہو رہا ہے، آزادکشمیر چونکہ قومی سیاست کی تجربہ گا ہ ہے اور ہر نئے تجربے کا لیبارٹری ٹیسٹ یہیں ہوتا ہے، اس لئے سیاست اور سیاست دانوں کو بے توقیر کرنے کا تجربہ بھی آزادکشمیر میں ہو رہا ہے، اس کے بعد اس تجربے سے قومی سیاست میں استفادہ کیا جائے گا، یوں بھی مرکزی سیاست کا کینوس اس سے چنداں مختلف منظر پیش نہیں کر رہا جہاں تیرہ سیاسی جماعتیں حکومت میں موجود ہیں مگر ان کا اعتبار ساکھ اور عوامی حمایت برائے نام رہ گئی ہے اور لاہور کے ایک گھر میں بیٹھا شخص ان سب پر بھاری پڑ رہا ہے، گویا کہ حکومت اور حکومتی جماعتوں کی حیثیت پانیوں پر تیرتی کاغذ کی کشتی کی ہو کر رہ گئی ہے، آزادکشمیر کی حکمران جماعت کا بحران اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کا نتیجہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے، پارٹی کا بڑا دھڑا اس وقت عمران خان کے ساتھ وابستہ ہے اور
صدر آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی سرپرستی میں ایک موثر گروپ اپنے آپشنز کھول اور کارڈز ترتیب دے چکا ہے، آج حکمران جماعت کو جو دن دیکھنا پڑ رہا ہے اس کے پیچھے ایک پوری کہانی ہے، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اگر آج صدر کے منصب پر فائز ہیں تو یہ عہدہ انہیں پی ٹی آئی سے وابستگی اور قیادت کی عنایت خسروانہ سے نہیں بلکہ اپنے زورِ بازو اور راولپنڈی میں اپنے گہرے روابط کی وجہ سے حاصل ہوا، پی ٹی آئی نے انہیں وزیراعظم کے عہدے کے قریب پھٹکنے نہیں دیا، حد تو یہ کہ صدر کے لئے ابھی وہ پارٹی کے فیورٹ نہیں تھے، یوں آزادکشمیر کی سیاست سے باہر نکال دیئے جانے کی اس کوشش کو انہوں نے بہت مشکل سے ناکام بنایا، یہی وجہ ہے کہ صدر منتخب ہوتے ہی پارٹی قیادت کے ساتھ ان کے روابط کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، صاف نظر آرہا تھا کہ وہ پارٹی میں اب فقط دن ہی گزار رہے ہیں، پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت میں آزادکشمیر کے فیصلہ ساز آزادکشمیر کے مزاج یہاں کی زمینی حقیقتوں اور سیاسی حرکیات سے قطعی نابلد تھے، وہ شام کی محفلوں میں خلائی مخلوق کے ساتھ مل کر خلائوں میں بیٹھ کر فیصلے کرتے تھے اوراس بات سے بے خبر تھے کہ زمینی مخلوق پر اس کا کیا اثر ہوگا، انہیں وقت بدلنے کا احساس و ادراک ہی نہیں تھا، علی امین گنڈا پور اور سیف اللہ نیازی جیسے کردار آزاد کشمیر کی سیاسی حرکیات کو سمجھنے سے قاصر رہے جس کی بناء پر بیرسٹر سلطان محمود جو آزادکشمیر کے سینئر اور تجربہ کار سیاست دان تھے ان مڈل مینوں کے ہاتھوںبے توقیر ہوتے رہے، ان لوگوں کو بیرسٹر سلطان محمود کے قد کاٹھ کی وجہ سے معاملات طے کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اس لئے انہیں متبادل کے طور پر ایک ایسے کردار کی تلاش رہی جسے وہ اشارۂ ابرو سے کنٹرول کر سکیں، اس ضرورت اور تلاش کے سفر نے تحریک انصاف کے اس بحران کی بنیاد رکھ دی تھی جو آج پوری طرح موجزن اور حکومت کو بہالے جانے کو تیار ہے،2016ء تک پی ٹی آئی آزادکشمیر بکھرے ہوئے نوجوانوں کا فین کلب تھی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مقابلے میں تحریک انصاف کو عوامی سطح پر کوئی اہمیت دی جا رہی تھی نہ سیاست میں کوئی وزن حاصل تھا، بیرسٹر سلطان محمود اپنے ڈیڑھ درجن پرانے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہوئے تو پی ٹی آئی کا شمار ایک سیاسی جماعت کے طور پر ہونے لگا، اسی دوران میرپور کے ایک ضمنی انتخاب میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کامیابی حاصل کرکے پی ٹی آئی کو آزادکشمیر کی پارلیمانی پارٹی بنایا، آزادکشمیر بھر سے سیاسی کارکنوں نے پی ٹی آئی کی جانب دیکھنا اور اس جانب متوجہ ہونا شروع کیا، سابق وزیر اعظم، سابق قائد حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ ان کے پروفائل میں ایک بڑی برادری سے وابستگی اور کشمیر کے حوالے سے سرگرمیوں کا طویل ریکارڈ بھی شامل تھا، پی ٹی آئی میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی اس حیثیت کو اہمیت نہیں ملی اور انہیں کبھی اسلام آباد کے کسی سیکٹر تو کبھی سیور فوڈز بلیو ایریا کی سیڑھیاں چڑھنے پر مجبور کیا جاتا رہا، ایک مرحلے پر پارٹی کی صدارت بھی بیٹھے بٹھائے چھن گئی تو تعلق کی ڈور کمزور ہوکر رہ گئی، آزادکشمیر کی سیاست کی سب سے بڑی زمینی حقیقت آج
بھی برادریاں ہیں، اس کے بعد مقامی لیڈر کی اپنی شخصیت بھی حالات پر اثر انداز ہوتی ہے، یہاں کی سیاسی حرکیات پر وفاقی شخصیات کی مقبولیت بہت کم ہی اثر انداز ہوتی ہے، آزادکشمیر کا پہاڑی کلچر اور برادریوں پر مبنی سیاسی مزاج آسانی سے بیرونی ہوائوں کا اثر قبول نہیں کرتا یہاں کی سیاست میں پاکستانی شخصیات سے زیادہ مقامی شخصیات زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ آزاد کشمیر کی الگ شناخت نے یہاں لوگوں کی مزاج سازی بھی چاروں صوبوں سے ذرا مختلف انداز سے کی ہے، کوہالہ اور منگلا پلوں پر کھڑا آزاد کشمیر کا شہری جب دوسری جانب اشارہ کرتا ہے تو ”وہ پاکستان کا علاقہ ہے” کہہ کر تعارف کراتا ہے ۔ اس تعلق اور تاثر نے ایک مائنڈ سیٹ کو جنم دیا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہوتا جا رہا ہے، اس باریک اور حساس تعلق کی بُنت قائداعظم محمد علی جناح نے کی ہے جن کی فکر کے مطابق آزادکشمیر کا موجودہ سٹیٹس تشکیل پایا تھا، آزادکشمیر کی سیاست میں برادری بھی حقیقت ہے اور مقامی شخصیات کا قد کاٹھ بھی ایک حقیقت ہوتا ہے، آزادکشمیر کے اس منفرد مزاج کو پی ٹی آئی کے آزاد کشمیر سے متعلق فیصلہ ساز سمجھ نہ سکے اور یوں بیرسٹر سلطان محمود کو دیوار سے لگا کر وہ اپنی پارٹی اور حکومت کی بنیادوں میں ایک ٹائم بم رکھ بیٹھے، یہ لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا اور جب اسے موجودہ صورت حال نے موقع دیا تو دھماکے سے پھٹ گیا۔ دوسری جماعتوں میں بھی انیس بیس کے فرق کے ساتھ” سب اچھا” نہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاست کا یوں بازیچہ اطفال بننا سیاست کے مجموعی ماحول کے لئے اچھا نہیں، اس سے سیاست دان ہی نہیں سیاست بھی کمزورہو رہی ہے اور سیاست کی کمزوری کا مطلب غیر سیاسی قوتوں کی مضبوطی اور غیر سیاسی سوچ کی آبیاری ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن