سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی جانب سے صوبائی حکومت کی جانب سے عدم ادائیگی کے باعث صحت کارڈ پلس پروگرام میں آبادی کے مفت علاج کے لئے نئے داخلے روک دیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت نے فہرست میں شامل ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے اخراجات کے عوض انشورنس کمپنی کو14 ارب روپے ادا کرنے ہیں حکومت نے دو ماہ میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ ہر ماہ 4 ارب روپے ادا کرے گی جس میں سے ڈیڑھ ارب روپے بقایا رقم جبکہ 2 ارب 50 کروڑ روپے مریضوں کے ماہانہ علاج پر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی تھی اور محکمہ صحت کو ہر ماہ کی 20 تاریخ کو4 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ مارچ میں یہ 4 ارب روپے ادا نہیں کئے گئے ہیں نگراں حکومت شدید مالی رکائوٹوں کی وجہ سے رقم ادا نہیں کر سکتی، ذرائع کے مطابق بقایا جات کے مسئلے کو حل کرنے اور پروگرام کو جاری رکھنے کیلئے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک طویل اجلاس ہوا جس میں صحت سہولت پروگرام کے حکام اور محکمہ صحت و خزانہ کے سیکرٹریوں نے شرکت کی لیکن اشارے مل رہے ہیں کہ فنڈز نہیں ہیں اور اس کے نتیجے میں پروگرام بند رہے گا،2016ء میں شروع ہونے والے اس پروگرام کو چار منتخب اضلاع میں3 فیصد آبادی کا احاطہ کرتے ہوئے مرحلہ وار انداز میں پوری آبادی تک پھیلایا گیا اب تک 22لاکھ مریضوں نے51 ارب روپے کی لاگت سے مفت خدمات حاصل کی ہیں، صوبے میں مفت علاج کیلئے رجسٹرڈ 9.78 ملین سے زائد خاندان ملک بھر میں شامل ہسپتالوں میں مفت تشخیص اور علاج حاصل کر سکتے ہیں، اس مقصد کیلئے ملک بھر میں 11سو ہسپتال ہیں جن میں خیبرپختونخوا کے 193 ہسپتال شامل ہیں جہاں صحت کارڈ پر صوبے کی آبادی کو خدمات فراہم کی جا رہی ہیں، صحت کارڈ پلس پروگرام سے مریضوں اور ان کے لواحقین کو علاج معالجے میں کس قدر سہولت ملی اور اس کی افادیت کیا تھی اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے جن لوگوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا ان کو بخوبی علم ہے بہرحال یہ ایک نافع اور عوامی سہولت کا پروگرام تھا جس کی افادیت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں جو بدقسمتی سے مالی بحران کی زد میں آیا، وفاق اگر صوبے کو صوبے کے حصے کا فنڈ اور بقایا جات و واجب الادا رقوم کی بروقت فراہمی کرتا تو یہ نوبت نہ آتی اس ضمن میں بلاتاخیر فنڈز کے اجراء کی ضرورت ہے، عوام کو بھی اس سہولت کے چھن جانے پر چپ سادھ لینے کی روش ترک کرنی چاہئے۔
