احتجاج بلاوجہ نہیں

طورخم پر پہاڑ سرکنے سے پیش آمدہ دلخراش واقعہ کے تین دن بعد بھی امدادی کارروائیوں میں بھاری مشینری استعمال نہ ہونا بے حسی کی انتہا ہے جس پر عمائدین علاقہ اور مقامی افراد کا مشتعل ہونا فطری امر تھا، گورنر خیبرپختونخوا اور صوبائی وزیر اگر دورے سے قبل حالات سے آگاہی کی زحمت کرتے اور کام میں تیزی لانے کے اقدامات کے بعد جگہ کا دورہ کرتے تو ان کو اس طرح کی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہ ہوتا، سرکاری حکام تو موقع پر موجود تھے اور ان کی بے بسی و لاچارگی کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امدادی کارکن کس بے سروسامانی کے عالم میںکام کر رہے تھے مقامی عمائدین اور متاثرہ افراد کے لواحقین کو کسی نہ کسی طور ان کی بے بسی و لاچارگی کا علم ہوا ہو گا تبھی تو ان سے تعرض نہ کیا گیا اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی آمد تک صبر کا دامن نہ چھوڑا گیا بہرحال جو صورتحال پیش آئی اس میں احتجاج کرنے والوں کو مطعون نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے جذبات کے عالم میں نعرہ بازی کی، معاملہ اس وقت بے قابو ہوگیا جب دونوں شخصیات اس مقام پر پہنچیں تو تین روز سے جاری امدادی کارروائیوں اور آپریشن سے عاجز شہریوں نے گورنر اور نگران وزیراعلیٰ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔ مظاہرین کی شکایت بجا ہے کہ تین روز سے آپریشن جاری ہے اب تک ملبہ کے نیچے دبے افراد نہیں نکالے جا سکے ہیں، ریسکیو کی بڑی مشینری طور خم تک نہیں لائی گئی اور آپریشن برائے نام ہو رہا ہے، مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ پہاڑ خود نہیں سرکا بلکہ اس مقام پر راستہ بنانے کیلئے دھماکہ کیا گیا جس سے پہاڑ سرک گیا اور گاڑیاں دب گئیں، جہاں تک مظاہرین کے موخر الذکر الزام کا تعلق ہے یہ سراسر لغو اور بے بنیاد ہے، پہاڑی علاقے کے مکین ہونے کے باعث اس صورتحال کا ان کو درجنوں بار مشاہدہ ہوا ہو گا کہ بارشوں کے باعث پہاڑ سرکتا ہے اور تودے گرتے ہیں یہ معمول کا عمل اور حادثہ تھا جس کا الزام حکومت اور سرکاری مشینری کو دینا مناسب نہیں، بہرحال یہ ایک حادثہ تھا جس کے متاثرین اور خاص طور پر امدادی کام پر پوری توجہ کی ضرورت تھی جس میں سرکاری مشینری ناکام رہی، حالات کے پیش نظر علاقے میں امدادی کاموں کے لئے ضروری سہولیات کے ساتھ ہنگامی امدادی مرکز کے قیام کا وعدہ جلد سے جلد پورا کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟