چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر حل نکالنے کی تجویز کے بعد مذاکرات کی پہلے سے کوشاں جماعت پی پی پی نے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے، سابق صدر آصف علی زرداری نے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی تصدیق کر دی ہے، اس ضمن میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مذاکرات کیلئے مولانا فضل الرحمن کو منانے کی خاطر ان کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی، یہ پیشرفت اس کے بعد کی ہے جب گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکالیں، ان کے ریمارکس کے بعد پیپلز پارٹی متحرک ہوگئی، چند روز قبل پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت تمام اتحادی جماعتوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق کیا تھا تاہم ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن اور میاں محمد نواز شریف نے عمران خان کے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا تھا، چیف جسٹس کی جانب سے تجویز سامنے آنے کے بعد آصف علی زرداری نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ ان کے تمام اتحادیوں نے اس پر مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان نے اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت دفاع اور خزانہ کی جانب سے ایک ہی دن میں الیکشن کرانے اور معاشی صورتحال کے مدنظر معاملات قوم کے سامنے ہیں جس کی پاسداری کی جائے گی، ایک ہی دن جنرل الیکشن کروانا مسائل کا حل ہے، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی طور پر تمام اداروں کے اختیارات تقسیم ہیں، عدلیہ اور انتظامیہ کا اپنا دائرہ کار ہے، الیکشن کمیشن کے اختیارات آپ نے سلب کر دیئے اور پورا الیکشن شیڈول دے دیا، انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے اختیارات پر قبضہ کیا گیا ہے، آئینی طور پر اختیار تقسیم ہیں تو پھر کیوں مداخلت کی جا رہی ہے، ہر شعبے میں مداخلت ہوگی تو حکومت اور ادارے کیسے کام کریںگے، ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کی تجویز ہر طرف سے دی جاتی رہی خود پی ڈی ایم کے اندر اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس کی سعی ہوئی امیر جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں ملاقاتیں کیں لیکن اس کے باوجود طرفین میں بعد کی کیفیت رہی، سیاسی جماعتوں کا کردار و عمل یہ سامنے آیا ہے کہ اولاً وہ سیاست میں مداخلت اور سیاسی معاملات میں رائے نہ دینے کی بات کرتے ہیں جو جائز اور مناسب بات ہے لیکن دوسری جانب جب وہ خود ہی آپس میں بات چیت اور سیاسی مکالمہ سے پرہیز کریں گے سیاسی اختلافات اور سیاسی معاملات کا حل سیاسی طریقے سے نہیں نکالا جائے گا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی معاملات کیسے آگے بڑھیں گے، آئین اور دستور پر عملدرآمد کیسے اور کون کرائے گا، چیف جسٹس کے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے حکم اور حکومت کی جانب سے لیت و لعل کے معاملے کو متنازعہ فرض کرکے اگر ایک طرف رکھ کر سوال کیا جائے کہ اس سے قطع نظر آئین میں نوے روز کے اندر ضمنی انتخابات کا انعقاد کوئی متنازعہ معاملہ نہیں واضح طور پر سبھی کو معلوم ہے تو پھر اس پر عملدرآمد میں روڑے کیوں اٹکائے جارہے ہیں اور اس کشمکش میں پارلیمان اور عدالت عظمیٰ کو کیوں آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے، نوے دن کے اندر انتخابات کا انعقاد تو درکنار ابھی تو لوازمات اور معاملات کی درستگی کی طرف پیش رفت کی بجائے روڑے اٹکانے کی مساعی ہو رہی ہیں، وزراء ببانگ دہل مقررہ تاریخ پر انتخابات کے نہ ہونے کا نقارہ بجا رہے ہوتے ہیں جب اس طرح کا ماحول ہو گا اور معاملات عدالت کے سامنے آئیں گے تو پھر جو صورتحال بنے گی وہ سبھی کے سامنے ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ملک میں بیک وقت انتخابات کے انعقاد کے نکتے پر کسی کو اختلاف نہیں، عدالت نے بھی نرمی کا عندیہ دیا ہے ایسے میں اگر سیاسی قائدین ضد اور انا ایک طرف رکھ کر ملکی مفاد میں درمیانی راہ نکالنے پر آمادگی کا اظہار کریں تو یہ چنداں مشکل امر نہیں، سیاسی قائدین اگر ایک دوسرے سے اتنا ہی بیزار ہیں کہ مل بیٹھنے پر آمادہ نہیں تو درمیانی مدت کے انتخابات کی تاریخ پر بالواسطہ مذاکرات کے ذریعے اتفاق رائے ہو سکتی ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جائے تو دھول بیٹھ جائے گی اور انتخابی تیاریوں میں کشیدگی میں بھی کمی آنا فطری امر ہوگا، ملکی سیاست کا جو رخ سیاستدان پیش کرنے لگے ہیں، ماضی میں اس کے منفی نتائج جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کی صورت میں سامنے ہیں، پی پی پی اور مسلم لیگ نون میں میثاق جمہوریت کے بعد سیاسی حالات میں جو بہتری آئی تھی اس کے ثمرات سے سیاسی استحکام نظر آرہا تھا جو ایک مرتبہ پھر خطرے میں پڑ گیا ہے، سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو اس کا احساس ہونا چاہئے اور بلاتاخیر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر سیاسی معاملات کو کسی اور فورم کی بجائے سیاسی فورم ہی میں حل کر کے قوم کو اس ہیجان اور بحران سے نکالنے کی سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
