قارئین کرام !! آپ کو عید مبارک ہو

اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں میں رمضان کا مہینہ ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ نے ہمیں عنایت فرمائی ۔ اس ماہ میں قران مجید کا نزول ہوا جو ہدایت ہے اور محمد ۖ کی رسالت عطا کی گئی ۔ ہر دن اور سب مہینے ایک جیسے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں لیکن بعض لمحات ایسے آئے کہ کائنات اور انسانیت کا مقدر جگا گئے ، اس ماہ میں رب نے ہم جیسے انسانوں کی رہنمائی کا سامان فراہم کیا اور غار حرا میں ہدایت خداوندی کی کرن داخل ہوئی ۔ اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے کہ رمضان المبارک میں اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازا جس میں روزے رکھے ، قران پڑھا ، راتوں کو قیام ہوا، اعمال صالح کا اہتمام کیا اور پھر ہم سب کو عید منانے کی توفیق عطا فرمائی ۔ قارئین کرام ! عید الفطر کے اس مبارک موقع پر آپ سب کو عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ میری یہ دُعا ہے کہ خوشی و مسرت کا یہ دن ہم سب کی زندگی میں بار بار آئے اور اللہ ہمیں اس مبارک دن کی رحمتوں سے مالا مال ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ عید کا دن اگر ایک طرف انعام ہے اور اللہ نے خوشی کا اظہار کرنے کے لیے مرحمت فرمایا ہے تو دوسری جانب ہم سب کے لیے یہ دن اللہ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لانے کا دن ہے ۔ شکر اس بات پر کہ باری تعالیٰ نے ہمیں روزہ رکھنے ، نمازیں پڑھنے ، عبادات اور فرماں برداری کی توفیق نصیب فرمائی ۔اگر اللہ نہ چاہتے تو ہم اس سے مالا مال نہ ہو سکتے ۔ہمیں اس خوشی کے موقع پراُن بزرگوں ، عزیزوں اور دوستوں کو یاد رکھنا ہو گا جو گزشتہ رمضان المبارک کے مہینے اور عید کے دن ہمارے درمیان موجود تھے اور اس مرتبہ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں کہ اللہ کی جوار میں چلے گئے ۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے اپنا ایک دوست یاد آیا کہ برسوں پہلے ہم یونیورسٹی کی مسجد میں تراویح کی نماز پڑھ کر واپس اپنے ہاسٹل آرہے تھے ۔ عید میں ابھی چند دن باقی تھے اور مَیں نے اس سے پوچھا کہ گھر کب جا رہے ہو ۔ پہلے تو خاموش رہا پھر کہا کہ عید کے دن یہاں اپنے ہاسٹل میں رہوں گا ۔ میری حیرانی دیکھ کر کہنے لگا کہ میرے والدین اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور مَیں ایک مدت سے اُن کی محبت و شفقت سے محروم ہوں ۔ ایک ہی بڑا بھائی ہے جو قطر میں مقیم ہے اور دیگر رشتہ داروں میں وہ پیار و محبت کبھی نہیں پائی کہ ان کے پاس جاکر عید کا دن گزار آؤں ۔ یہ سن کر بڑا دکھی ہوا بلکہ آج میری طرح ایسے بہت سے لوگ جن کے والدین نے طویل عمریں پائیں ، اُنہوں نے والدین کے ساتھ مل کر بہت سی عیدین کی خوشیاں منائیں لیکن اب اُن کی مفارقت کے بعد اور اس عمر میں کہ بڑھاپا غالب ہے ، جب بھی عید آتی ہے تو اس خوشی کے موقع پر مرحوم والدین برابر یاد رہتے ہیں ۔ دُنیا میں انسان کے سب سے بڑے محسن اُس کے والدین ہیں اور اُن کے ساتھ نیکی اور حسن ِ سلوک کی بڑی تاکید ہے۔ اس لیے عید کے موقع پر اپنے مرحوم والدین کے لیے دعائیں کرنی چاہیے کہ اللہ انہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے سرفراز فرمائے ۔عید کا دن دراصل یوم تقسیم انعامات ہے ، یہ بدلے کا دن ہے ۔ اللہ اس دن اپنے نیک بندوں کے لیے انعام کا اعلان فرماتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس مبارک ماہ میں اپنے رب کو راضی رکھا اور اس کی ضرورت مند مخلوق کے کام آئے ۔ ہمارے ایک پڑوسی ہر شب چند دوستوں کو تراویح کی نماز پڑھ آنے کے بعد اپنے گھر چا ئے پلاتے ۔ دوست احباب اُن کی میزبانی کو سراہتے تو وہ ہمیشہ کہتے کہ اسی میں میرا اپنا نفع ہے کہ آپ جیسے نیک لوگوں کے طفیل مجھ گناہ گار کا بھی بیڑا پار ہو جائے اور جو مغفرت و بخشش کا دریا بہتا ہے ، شاید وہ میری دنیا کا رخ بھی بدل دے ۔ ہمارے پیارے نبی محمدۖ نے ایک حدیث میں یہ مضمون فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عید کی نماز پڑھنے والے اجتماع پر فخر کرتے ہیں ۔ یہی وہ سرمایہ ہے اور یہی وہ نیکی و ثواب ہے جو روزہ نے عیاں کر دیا کہ اصل چیز اطاعت الہی ہے ۔ عید کا یہ مبارک دن امن و سلامتی ، محبت و اخوت اور بھائی چارے کے پیغام کو عام کرنے کا دن ہے ۔ اسلام کی انسانیت نوازی سے متعلق جو تعلیمات ہیں ، اس سے دُنیا کو روشناس کرنے کا دن ہے ۔ یہ بتانا ہے کہ ایک مسلمان محبت کو عام کرنا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتا ہے ۔ یہ مبارک دن تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی اس خوشی میں دُکھی انسانیت کو بھی شامل کریں ، جو لوگ پریشان حال ہیں اور معاشی اعتبار سے کمزور ہیں ، تو اس موقع پر یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم سماج کے ایسے کمزور اور دکھی لوگوں کی نشاندہی کریں اور اللہ کی طرف سے ہمیں دی گئی نعمتیں ان میں تقسیم کریں ۔ اُن کو اس قابل بنائیں کہ وہ بھی خوشیوں میں شامل ہوں ، اچھا پہنیں ، اچھا کھائیں اور اسے اپنی عزت و توقیر سمجھیں ۔ اللہ کا بھی یہی فرمان ہے کہ تم دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرو جیسا کہ خدا تمہارے ساتھ بھلائی کرتا ہے ۔ اسلام میں اس قسم کے جتنے اخلاقی احکام ہیں وہ مذہب و ملت کی تخصیص کے بغیر سارے انسانوں کے لیے عام ہیں ۔ غریبوں کی دست گیری ، مظلوموں کی امداد اور اسی طرح کے دوسرے نیک کام کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ، ہاں اولیت اور ترجیح اپنے اہل مذہب ، عزیزوں ، پڑوسیوں اور یتیموں کو حاصل ہو گی کہ چراغ پہلے گھر سے جلتا ہے ۔ اس حوالہ سے نبی اکرم ۖ کی زندگی ہمارے لیے عملی نمونہ ہے ۔ ایسے پُر آشوب دور میں صرف سیرت النبیۖ اور اسلامی تعلیمات ہی معاشرے کو بھائی چارے اور امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتی ہے ۔ اس خوشی کے دن ہمیں یہ دعا کرنی ہوگی کہ اللہ ہمارے دل کو ہر قسم کے روگ اور بیماری سے پاک رکھے ۔ جو اللہ کے لیے عاجزی اور مسکنت اختیار کرتا ہے ، اللہ اُسے رفعت اور عزت عطا کرتا ہے ۔ ہمیں ایک ایسا انسان اور مسلمان بن کر جینا چاہیے کہ جس کے قول و فعل اور ہاتھ سے دنیا میں رہنے والا ہر انسان محفوظ رہے ۔ عید جیسی خوشیاں تب ہی ملتی ہیں جب ہماری ذات کسی کے لیے مضر نہ ہو اور انسانی حقوق کی پاسداری کریں ۔ حضرت علی نے فرمایا ہے کہ ہر وہ دن جب ہم اللہ کی نافرمانی نہ کریں ، ہمارے لیے عید کا دن ہے ۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام