کشیدگی کا نقطہ عروج

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات بارے درخواست پر سماعت اب 27اپریل کو ہوگی۔ اٹارنی جنرل اورپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے چیمبر میں بینچ کو سیاسی جماعتوں سے رابطوں کے بارے میں بریفنگ دی ۔عدالت میں کی گئی یقین دہانی اپنی جگہ لیکن عدالت سے باہر مختلف قسم کے بیانات دیئے جارہے ہیں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عدالت ہمیں کہہ رہی ہے کہ عمران خان سے بات کریں اور الیکشن کے لیے کسی ایک تاریخ پر اتفاق کریں۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے سربراہ نے مزید کہا کہ عدالت جس اختیار کے تحت دھونس دکھا رہی ہے وہ اس کا اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ عمران خان کے لیے لچک پیدا کر سکتی ہے تو ہمارے لیے لچک کیوں پیدا نہیں کر سکتی، عدالت اپنے رویے میں لچک پیدا کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انصاف کو تسلیم کرتے ہیں لیکن آپ کے ہتھوڑے کو تسلیم نہیں کریں گے، ہم عدالت کے اس جبر کو تسلیم نہیں کرتے۔اگرچہ مولانا فضل الرحمن کے برعکس پی پی پی مذاکرات کے عمل کی حامی ہے اس کے باوجود پارٹی چیئرمین اوروزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ منسوخ نہیں کیا جاتا مذاکرات کے لیے اپنے اتحادیوں کو کیسے راضی کروں گا، سر پر بندوق رکھ کر کوئی مذاکرات نہیں کر سکتا۔سیاسی کشیدگی اور انتخابات سے متعلق معاملات کی کشیدگی سے پارلیمان اور عدلیہ آمنے سامنے ہیں معروف سیاستدان اب کھل کر عدالت کے سامنے آگئے ہیںمشکل امر یہ ہے کہ سیاستدان باہم مل بیٹھنے کو تیار نہیں جس کے اثرات اب ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے اور ان پرتنقید کی صورت میں سامنے آنے لگی ہیں ۔تمام کوششوں کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ حکمران اتحاد ببانگ دہل مذاکرات پر آمادہ نہیں حکمران اتحاد کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے یہاں تک نظر آتا ہے کہ اب ان کو حکومت جانے کی بھی پرواہ نہیں مشکل امر یہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی اور انتخابات کا انعقاد اسی ماحول میں ہوا تو اگر کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل کرکے تنہا حکومت سازی کی پوزیشن میں آتی ہے تو وہ الگ صورتحال ہو گی مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا اس صورت میں بعد میں بھی مذاکرات اور مکالمہ ہی سیاسی ضرورت ہوں گے ان حالات و واقعات کے تناظر میں کوئی چارہ اس کے علاوہ نظر نہیں آتا کہ سیاسی قیادت کو ہٹ دھرمی ترک کرکے مذاکرات کا راستہ اختیار رکرنا چاہئے ارباب اقتدار سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے فکر مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ حالات جمہوری طور طریقوں سے معمول پر آجائیں مگر اس کے لئے اپوزیشن کی مثبت سوچ بھی ضروری ہے ۔جمہوریت اجتماعیت کا تقاضا کرتی ہے یعنی سب کو مل جل کر اتفاق رائے سے ملک و قوم کے بارے میں فیصلے کرنے چاہئے اس کے برخلاف اٹھایا گیا کوئی بھی قدم انارکی اور لاقانونیت کا سبب بنے گا۔ملک کی موجودہ صورتحال عوام کی اکثریت کے لئے ناقابل قبول ہے ۔ اس لئے اس سے پہلے کہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہو جائے ارباب اقتدار اور اپوزیشن کے رہنمائوں کو عقل سلیم سے کام لینا چاہئے اور اپنے رویوں میں توازن پیدا کرنا چاہئے دھونس دھمکی اور تشدد کے طور طریقوں سے اجتناب نہ برتا گیا تو قوموںکی برادری میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اقتصادی بدحالی کے اس مرحلے میں ملک سیاسی ا نتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے ۔اس وقت اگرچہ ملک میں سیاسی فضا میں ارتعاش ہے اور کسی طورپر نظر نہیں آتا کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھیں گی لیکن خواہ جتنے بھی اختلافات ہوں بالاخرسیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ہی صورتحال سے نکلنا ہوتا ہے ماضی میں مارشل لاء بھی لگے اور ایمرجنسی بھی لگی لیکن بالاخر حکومت اور معاملات کو سیاستدانوں ہی کو منتقل کرنا پڑا ایک جمہوری ملک میں سیاسی نظام میں وقتی مداخلت تو ہو سکتی ہے لیکن بالاخر جمہوری اداروں ہی سے رجوع اور سیاستدانوں کو اقتدار سونپنے کی نوبت آجاتی ہے ۔بال سیاستدانوں کے کورٹ میں ہے یہ سیاستدانوں کا امتحان ہو گا کہ وہ اپنے معاملات کاخودہی حل نکالیںسیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ آمروں کے ہاتھوں کس قدر بے وقعتی کا شکار رہے ہیں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک ہوتا رہا اور خود سیاسی جماعتوں کی چپقلش کے کیا اثرات اور نتائج نکلتے رہے ہیں وہ کوئی فرموش کرنے والی بات نہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ خود سیاست دان ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے پرتیار نہیں جب ملک کے حالات سیاستدانوں کے ہاتھوں اس نہج کو پہنچ جائیں توکیا یہ ممکن ہو گا کہ کسی بھی جانب سے مداخلت نہ ہو اور بیٹھ کر تماشا دیکھا جائے ۔

مزید دیکھیں :   مشرقیات