2 178

ابتداء ایسی انجام خدا جانے!

ضلعی انتظامیہ سول ڈیفنس کے رضاکاروں کی موجودگی اور فلاحی تنظیموں ومخیر شہریوں کی امدادی کاموں میںحتی المقدور حصہ ڈالنے کے باوجود کورونا وائرس سے پیدا شدہ مسائل وحالات سے نمٹنے کیلئے ڈیڑھ دو ماہ کی تاخیر کے بعد بالاخر ٹائیگر فورس کا جو اجلاس پشاور میں منعقد ہوا اس کے پہلے ہی اجلاس میں سماجی فاصلے اور احتیاطی تدابیر کی سراسر خلاف ورزی اچھا آغاز نہیں۔ امدای کاموں کیلئے جس نظم وضبط، برداشت، تحمل اور قواعد وضوابط رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ جگہ جگہ سے اکٹھے ہوئے رضاکاروں میں کہیں نظر نہیں آیا، ان سے اس امر کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ نہ تو ان لوگوں کو اس قسم کے کاموں کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی ان کو اس کی مناسب تربیت دی گئی ہے۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری بس اس حد تک ہی ادا کی کہ ڈپٹی کمشنر پشاور نے ان سے حلف لیا اس موقع پر جو منظرنامہ کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا وہ اس کثیر الاشاعت روزنامہ کی وساطت سے آپ سب نے ملاحظہ کیا ہوگا۔ ٹائیگر فورس کی خدمات کو مربوط بنانے اور اس کے کام کو ایک نظم وترتیب سے انجام دینے کو یقینی بنانے کیلئے سب سے پہلے ان کو تربیت دینے کی ضرورت ہے جس کا وقت ہے یا نہیں اس سے قطع نظر اس کے بغیر اس فورس کے قیام کا مقصد ہی پورا ہونا مشکل ہے۔
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار
خیبر پختونخوا حکومت نے ذخیرہ اندوزں کی روک تھام اور ذخیرہ اندوزں وگرانفروشوں کیخلاف سخت کارروائی کرنے کیلئے آرڈیننس کے تحت جو اختیارات کمشنر وڈپٹی کمشنرز اور ڈی آئی جیز کو دی ہے اس سے ملتے جلتے اقدامات قبل ازیں بھی بیسیوں مرتبہ اُٹھائے جا چکے ہیں۔ موجودہ آرڈیننس کے کوئی زیادہ مؤثر ہونے کی توقع حقیقت پسندانہ امر نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ قوانین موجود ہیں، حکومتی مشینری ان پر عملدرآمد مؤثر بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، جب تک اس کی وجوہات کا جائزہ لیکر اس خامی کو رفع نہیں کیا جاتا سول انتظامیہ جو بھی کارروائی کرے اس میں ناکامی کا امکان غالب ترین ہی رہے گا۔ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے حوالے سے وزیراعظم کے چیف سیکرٹریوں کو ہدایات واقدامات بارے اجلاس وفیصلے اور احکامات ایک سے زیادہ بار زیادہ دنوں کی بات نہیں مگر پرنالہ وہیں گرتا ہے جہاں گرتا رہا ہے، اب بھی ایسا ہی ہونا تقریباً یقینی ہے۔ لاک ڈاؤن کے دنوں ہی کی مثال لیجئے بجائے اشیاء ضروریہ کی قیمتیں کم ہونے کے رسد کے اضافی ہونے کے باوجود قیمتیں کم نہ ہوئیں، تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات بھی راستے ہی میں کہیں زائل ہو گئیں۔ ان حقائق کیساتھ ساتھ بھی اگر حکومت واقعی سنجیدگی کیساتھ مارکیٹ ومنڈی میں قیمتوں کو اعتدال میں لانے میں سنجیدہ ہے تو پھر سختی کے مظاہرے کو تسلسل دینا ہوگا جب دکاندار اور کاروباری طبقہ سخت اقدامات ہوتے دیکھیں گے کوئی رورعایت نہیںہوگی اور حکومت بھی خود کو تاجروں کا دباؤ برداشت کرنے کے قابل ثابت کرے گی اس کے بعد ہی انتظامیہ کے اقدامات کارآمد اور مؤثر ثابت ہوسکیں گے۔
خیبر پختونخوا میں غربت میں زیادہ اضافہ
خیبر پختونخوا میں غربت کی شرح میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اضافہ تحریک انصاف کی تسلسل کیساتھ دوسری حکومت کیلئے خاص طور پر لمحہ فکریہ ہونا چاہئے، تین سالوں کے دوران بجائے اس کے کہ اچھے حکومتی اقدامات کے نتیجے میں صورتحال میں بہتری آتی، ترقی معکوس کی نوبت کیوں آئی اس کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق صوبے میں غربت کی شرح آٹھ اعشاریہ نو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ اضافہ پالیسی نکتۂ نطر سے بہت بڑی تبدیلی ہے جو خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کی تین کروڑ پانچ لاکھ آبادی میں ایک کروڑ آبادی خطہ غربت سے نیچے ہے، کرونا سے پیدا شدہ حالات اور اس کے اثرات سے صوبے کی مزید آبادی غربت کی لکیر سے پست چلے جانے کا قوی خدشہ ہے۔ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں حالیہ تین سالوں میں صوبے میں پیدا شدہ صورتحال کی وجوہات میں قبائلی اضلاع کا بوجھ صوبے پر آنا اور وسائل میں عدم اضافہ بتایا جاتا ہے اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں چونکہ یہ کسی مخالف سیاسی جماعت اور حکومت مخالفین کا الزام نہیں اعداد وشمار کی روشنی میں مرتب شدہ رپورٹوں سے واضح ہے اسلئے اس معاملے کو احسن انداز میں سنجیدہ لینے اور مناسب اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ اندریں حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ صوبائی حکومت اور ساری سیاسی جماعتیں این ایف سی ایوارڈ میں قبائلی اضلاع کے عوام کے حصے کی رقم جو این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد حصہ تجویز کی گئی تھی اس کے حصول کیلئے متفقہ لائحہ عمل مرتب کیا جائے، نیز بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات کی بھاری رقم کا پرزور مطالبہ کیا جائے اور وزیراعظم کو صوبے کے عوام سے کئے گئے وعدے یاد دلائے جائیں۔ مرکزی حکومت ضم شدہ اضلاع کے حصے کی رقم دینے کی پابند ہے جبکہ خیبر پختونخوا کو اگر حکومت اپنے پاس سے وسائل نہیں دے سکتی تو کم ازکم صوبے کے حصے کی رقم کی ہی ادائیگی کی جائے تاکہ یہ رقم عوام کی ترقی وفلاح وبہبود کیلئے بروئے کار لا کر اور صوبے میں مواقع میں اضافہ کر کے عوام کو روزگار وکاروبار کے مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ وزیراعظم کو خیبر پختونخوا میں آبادی کے خطہ غربت سے مسلسل نیچے چلے جانے پر ماہرین کو صوبے کیلئے خصوصی اقدامات اور پیکج دینے پر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ صوبے کے عوام کم ازکم دیگر صوبوں کی بہ نسبت زیادہ متاثرہ تو نہ بنیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل ہنرمندی کے شعبے پر توجہ