حضرت جعفر صادق فرماتے ہیں : مجھے میرے والد نے وصیت فرمائی : پانچ آدمیوں کے ساتھ نہ رہنا اور نہ ان سے باتیں کرنا اور نہ راستے میں ان کے ساتھ گفتگو کرنا میں نے کہا : میں آ پ پر قربان ہوجائوں ، وہ پانچ اشخاص کون ہیں ؟ انہوں نے کہا :
فاسق کے ساتھ نہ اٹھنا ، نہ بیٹھنا ، اس لیے کہ وہ تجھے ایک لقمہ یا اس سے بھی کم کے بدلے میں بیچ دے گا ، میںنے کہا ایک لقمہ سے کم سے کیا مراد ؟ فرمایا : وہ لقمہ کی طمع کرے گا پھر اس سے بھی محروم رہے گا ، میں نے کہا : محترم ! دوسرا بخیل کے پاس نہ اٹھنا نہ بیٹھنا ، اس لیے کہ وہ ایسے وقت میں مال روک لے گا تجھ سے ، جب تجھ کو حاجت ہوگی ۔ تیسرا جھوٹے کے ساتھ میل ملاپ نہ رکھنا ، اس لیے وہ شراب کی طرح ہے ، قریب کو دوراور دور کو قریب کر دیتا ہے ۔ چوتھا احمق سے بچنا اس لیے کہ وہ چاہے گا کہ تجھے نفع پہنچا ئے تو وہ تمہیں نقصان دے بیٹھے گا ، پانچواں رشتہ داری کا تعلق ختم اور قطع کرنے والوں کے ساتھ میل جول نہ رکھنا ، اس لیے کہ ایسے شخص کو میں نے کتاب اللہ میں تین مقامات پر ملعون پایا ہے ۔
بابربادشاہ المتوفی 937ہجری کی ساری زندگی جنگ وجدال میں گزری ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی وہ شعر وشاعری بھی کر لیا کرتے اور اسی طرح وہ ہزل بھی کہتے تھے ، جس میں بے ہودہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، پھر انہوں نے ہزل کہنے سے توبہ کی ، ان کی توبہ کی داستان خود انہیں سے سنئے : کہتے ہیں کہ میں نے جب سے مبین (ایک مذہبی مثنوی ) کو نظم کرنا شروع کیا تو دل میں خیال آیا کہ جس زبان سے یہ پاک الفاظ نکلیں ،حیف ہے کہ اس سے بے ہودہ الفاظ بھی نکلیں اور جس دل میں ایسے مقدس مضامین آئیں ، افسوس ہے کہ اس میں ایسے ناپاک خیال بھی پیدا ہوں ۔ اسی دن سے ہزل کہنا ترک کر دی ۔
سچ یہ ہے کہ کسی گناہ گار بندے کے دل میں ایسے خیال کا پیدا ہونا ایک بڑی دولت ہے ، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے ، جو بندے اس طرح متنبہ ہوجائیں ، وہ اس کو سعادت عظمیٰ سمجھتے ہیں ۔
(تزک بابری اردو، ص54-50)
سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں مولانا کمال الدین زاہد ، علم کے علاوہ اپنے زہد و تقویٰ میں بھی مشہور تھے ۔ سلطان بلبن نے ان کے زہد اور تقویٰ کی شہرت سنی تو ایک روز ان کو اپنے پاس بلایا اور ان سے مودبانہ درخواست کی کہ اگر آپ میری نماز وں کی امامت قبول فرمائیں تو کیا عجب کہ آپ کی برکت سے حق تعالیٰ کی بارگاہ میں میری نمازیں بھی قبول ہوں ، لیکن مولانا کمال الدین نے اس درخواست کو قبول کرنے کے بجائے مکدر (غصہ ) ہو کر فرمایا کہ میرے پاس نماز کے سوا کوئی چیز نہیں رہی ، سلطان اسے بھی چھیننا چاہتے ہیں ۔ بلبن یہ سن کر خاموش ہوگیا اور معذرت کر کے مولانا صاحب کو رخصت کر دیا ۔
(تاریخی واقعات)
Load/Hide Comments