منزلیں اچھی تھیں ‘میرے ہم سفر اچھے نہ تھے

اب تک تو ہمیں یار لوگوں نے اسی فکری مغالطے کا اسیر بنا رکھا تھا کے دنیا بھر میں ہماری عدلیہ 139 بٹہ 130 کلئے پر موجود ہے اور اکثر سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ٹرولنگ کر کرتے ہیں شرمندگی کے احساس میں مبتلا کیا جاتا تھا ‘بات تھی بھی کچھ ایسی ہے کہ جب عدلیہ اپنا کر چھوڑ کر کسی بھی ملک کی سیاست میں براہ راست دخیل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مبینہ طور پر اپنے اہل خانہ کے مجبور کرنے پر(جبکہ وہ اہل خانہ کسی ایک شخص کے کرش میں مبتلا ہو چکے ہوں)ان کے کرش کو ملک پر مبینہ طور پر مسلط کرکے ملک کی لٹیا ڈبونے پر تلی بیٹھی ہو تو ایسی عدلیہ کے 139میں سے130کو کیا 140کی پوزیشن پر منفی پلس پوزیشن پر آنے میں بھی کوئی کسر نہیں رہتی’ اس حوالے سے آج کل جس طرح سیاسی قیادت کو مبینہ طور پر” بلیک میل” کرکے عدلیہ کے ذریعے جھکانے کے نظارے کھلے عام دیکھے جا سکتے ہیں’ اور اگر ایک دبنگ آواز نے متعلقہ بلکہ مبینہ غیر آئینی بنچ کے جو9 ممبران سے گھٹتے گھٹتے خودساختہ تین رکنی رہ گیا ہو اور ہے جس کی قانونی حیثیت کو سرکاری حلقوں نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے چیلنج بھی کر رکھا ہو، لیکن اس کے باوجود ”اتحادی حکومت” کے اندر ایک بار پھر”عدم اتحاد” کے بیج بونے کی ”سازش” کامیاب ہو کر اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے خطرات سر اٹھانے لگے ہوں جس کی وجہ سے بعض جماعتوں نے ایک بار پھر تقریباً وہی رویہ اختیار کر لیا ہے جن 2018 کے الیکشن کے ”آرٹی ایس زدہ ”نتائج کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے واضح اور دوٹوک موقف کہ اسمبلیوں کا حصہ نہیں بنتا چاہئے’مگرپیپلز پارٹی اور نون لیگ نے مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ میں صرف ”ٹوکن شرکت کے بعد چپکے سے راہ لی اور نہ صرف مولانا صاحب کے دھرنے کا حصہ بننے سے جان چھڑائی بلکہ اسمبلیوں میں بھیجا بیٹھے اب ایسا لگ رہا ہے کے ایک بار پھر خدا جانے کی مجبوریوں کی وجہ سے پارلیمنٹ تک کے اندرمبینہ چیلنج شدہ بنچ کے خلاف اکٹھے ہوتے ہوئے مضبوط موقف اختیار کرنے کے باوجود ایک بار پھر کمزوری دکھانے پر مجبور ہوگئے ہیں اور جس بینچ کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھا کر اس کے سامنے ڈٹ جانے پرکمر بستہ ہوگئے تھے، اب اس کے سامنے پیش ہو کر تقریباً معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیا ہے حالانکہ سپریم کورٹ کا کام آئینی اور قانونی معاملات کے ساتھ نمٹنے کے لئے آئین کے تحت ان معاملات کی تشریح کرتا ہے جبکہ ماہرین آئین و قانون کے مطابق عدالت عظمیٰ کو ”جرگہ کی حیثیت” اختیار کر کے اپنے کسی” ممدوح”کے حق میں سیاسی جماعتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا نہیں ہے’ اس حوالے سے جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے اس کے حوالے سے تو یہ خبریں آرہی ہیں کہ اسے پنجاب میں ایک بار پھر ان ہونے کے لئے مبینہ طورتحریک انصاف کی مدد کی ضرورت ہے اور بعض واقفان حال یہاں تک دعویٰ کرتے پائے جا رہے ہیںکہ قمر زمان کائرہ اور فواد چوہدری کے مابین” ڈیل” تقریباً فائنل ہو چکی ہے اس لئے وہ تحریک کے ساتھ مذاکرات کی حمایت میں حد درجہ آگے جاکر مولانا صاحب کو بھی راضی کرنے کی کوششیں کرنے کے لئے بلاول کی قیادت میں عبد الخیل(ڈیرہ اسماعیل خان) یاترا کر آئے ہیں مگر مولانا صاحب نہ صرف ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس میں محولہ تین رکنی بنچ کو جس دبنگ انداز میں للکارا وہ یقینا مولانا صاحب کا انداز ہی ہو سکتا تھا’ رہی بات لیگ(ن) کے قائدین کی تو وزیر اعظم پر تو تب سے ”کمزور موقف” اپنانے کے الزامات لگ رہے ہیں جب میاں نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کے حوالے سے انہوں نے لاہور میں جلوس نکال کر اسے ایئرپورٹ کی راہ دکھانے کی بجائے ادھر ادھر بھٹکاتے ہوئے تضیع اوقات کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور شنید ہے کہ اب بھی وہ جو کچھ کر رہے ہیں اور جس قسم کی کمزوریاں مینہ طور پر ظاہر کر رہے ہیں اور اس کا مقصد بھی نواز شریف کی واپسی کی راہ کھوٹی کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے ، یعنی بقول شاعر
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں ”بہادر” ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
یہ مولانا صاحب کو خراج تحسین پیش کریں کہ جو اکیلا ڈٹ کر کھڑا ہے اور مبینہ طور پر سازشیں کرنے والوں کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے’ وگرنہ کل تک محولہ تین رکنی بنچ کو نہ ماننے اور اس کے فیصلوں کے خلاف ڈٹ جانے والوں میں سے کیا کوئی ایک بھی نہیں تھا جو جمعرات کے روز محولہ بنچ سے یہ سوال کرنے کی جرات وہمت کر لیتا کہ جب ہم آپ کی آئینی حیثیت تسلیم ہی نہیں کرتے تو آپ نے کس حیثیت سے ہمیں بلایا اور دوسرے یہ کہ کیا عدلیہ کا کام ”جرگہ” کرانا ہے یا آئین و قانون کی تشریح کرتے ہوئے انصاف کا بول بالا کرنا ہے نہ کہ کسی ایک شخص کے حق میں فیصلے صادر کرتے ہوئے اسے ملک پر مسلط کرنے کیلئے جملہ سیاسی قیادت کو مبینہ طور پر بلیک میل اور مجبور کرنا ہے ؟ لیکن میں ذاتی مفادات سے لوگ مغلوب ہو جائیں تو وہ ”ہتھیار” ڈال کر خود کو سرنڈر کر لینے ہی میں عافیت جانتے ہیںاور لگ رہا ہے کے اس وقت ایک جانب پیپلز پارٹی اور دوسری جانب لیگ (ن)ایک بار پھر ٹریپ ہو کر مفادات کے گھنائونے کھیل کا حصہ بن چکی ہیں’ جس کا انہیں مستقبل میں کیا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، یہ کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے بلکہ بالکل سامنے کی بات اور نوشتہ دیوار ہے، بقول منیر نیازی
ہم زبان اچھے تھے ان کے دل مگر اچھے نہ تھے
منزلیں اچھی تھیں میرے ہم سفرا چھے نہ تھے
بات تو چلی تھی ایک ایسی صورتحال کے حوالے سے جس کا موازنہ بقول واقفان حال ہماری عدلیہ کے139 بٹہ130 کے ساتھ کرنا مقصود تھا مگر رہوار قلم نے سرپٹ دوڑتے ہوئے حالات حاضرہ کا احاطہ کرتے ہوئے جائزہ لینے پر مجبور کر دیا۔ حالانکہ اصل موضوع یہ تھا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار اور کارکردگی کا تجزیہ کرنے والی فرم اوکلا نے ملک کے اندر انٹرنیٹ کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق موبائل انٹرنیٹ رفتار میں پاکستان 125ویں نمبر پر ہے اور دراصل عدلیہ والی رینکنگ کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ چلو اچھا ہوا کہ صرف ہمارا شمار دنیا بھر میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں اپنی عدلیہ ہی کے موازنے میں ہم نے ”کمال” نہیں دکھایا بلکہ انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے بھی ہم ”ما شا اللہ اور سبحان اللہ”ہی ہیں ۔ یعنی دنیا انٹر نیٹ رفتار کے حوالے سے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور اس وقت دنیا کے بیشترممالک میں فائیو جی ٹیکنالوجی تیزی سے پھیل رہی ہے، بلکہ اب اس سے بھی مزید ایڈوانس ٹیکنالوجی کے تجربات ہو رہے ہیں ، جبکہ ہمارے ہاں اب تک فورجی ٹیکنا لوجی بھی ہر جگہ دستیاب نہیں بلکہ بیشترعلاقوں میں تھری جی ٹیکنالوجی ہی استعمال ہو رہی ہے اور صرف بڑے شہروں میں فور جی ٹیکنالوجی دستیاب تو ہے مگر جہاں جہاں یہ سہولت موجود ہے وہاں بھی اس حوالے سے سگنل ہر جبکہ کام نہیں کرتے’ اور مختلف موبائل کمپنیاں جو فور جی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے دعوے کرتے ہیں ان کے سگنل اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ ذرا تنگ گلی محلہ ہو، یا پھر کسی عمارت کا تہہ خانہ ہو تو سگنل غائب ہو جاتے ہیں ایسی صورتحال میں انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے اگر ہم عالمی سطح پر 125ویں نمبر پر ہیں تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ہو سکتی’ یہاں تو صورتحال یہ ہے کے اکثر موبائل کمپنیوں نے اپنی پروڈکشن بند کر کے ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا ہے جبکہ اپیل جیسی کمپنی نے چین کے بعد اپنی پروڈکشن بھارت سے شروع کرکے بھارت کی اس حوالے سے بالا دستی میں اہم کردارادا کرنا شروع کر دیا ہے
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در ایوان عشق
اُو بہ صحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں