با مقصد الیکشن کی ضرورت ہے

کشف بابا جی سے ملاقات کافی دنوں بعد ہوئی تھی۔ جاتے ہی میں نے سیدھا سادا سوال کیا کہ حضرت اب ہوگا کیا ؟ پارلیمان اور عدالت عظمی آپس میں ٹکرا چکی ہیں۔اور خلائی مخلوق کی نیتوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ بابا جی کچھ توقف کے بعد گویا ہوے ” میں تو اس سارے قضئے میں پاکستان کے لئے خیر اور شر دونوں کے امکانات دیکھ رہا ہوں۔بات صرف نیتوں کی ہے۔ میری حیرانگی محسوس کرکے پوچھا کہ ” ٹکرانے والے کون ہیں”۔ کیا یہ دونوں طرف فرشتے ہیں۔جن کے ٹکرائو سے عوام کا کوئی نقصان ہوگا۔ ؟ نہیں۔دونوں طرف وہ ہیں جن میں سے اکثر کے اعمالنامے سیاہ کاریوں سے لبریز ہیں۔پارلیمان کی اکثریت کرپٹ اور جاہل ہے۔جن کے پاس ملک چلانے کی بنیادی تعلیم و تربیت ہی نہیں ہے۔ ان کے پاس ایک ہی گر ہے کہ عوام کو نئے نئے وعدوں سے بے وقوف بنا کر ان سے ووٹ لئے جائیں’اور وزیر مشیر بن کر اپنے بیٹوں’ بیٹیوں’بھانجوں’بھتیجوں حتیٰ کہ بیویوں اور سالیوں تک کو نوازا جائے۔ اس کے بعد کچھ کچرا بچ جائے تو وہ اپنے سیاسی ورکروں کے آگے ڈالا جائے ۔ لاعلم اور لا پروا اتنے کہ کچھ این جی اوز نے سازش کرکے اسی پارلیمنٹ سے ہم جنس پرستی کی ایکٹ منظور کروائی ‘اور مرد کی مرد اور عورت کی عورت سے شادی قانونی قرار دلوادی۔جس سے کئی ہزار گمراہوں نے فائدہ بھی اٹھا لیا ۔یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ دو تین اللہ والے اٹھ کھڑے ہوے جنہوں نے عوام کو خواب غفلت سے جگایا اور عدالت بھی گئے جس کے نتیجے میں وہ ایکٹ ختم ہوگیا۔ بعد میں ایک معتبر باریش لیڈر صفائی پیش کرنے لگے کہ ایک تو این جی اوز والے اتنے چالاک ہیں کہ اس بل کو اتنا بے ضرر اور معصوم بنا کے پیش کیا گیا کہ ہمیں اس کے مضمرات کا پتہ ہی نہیں چلا۔ بعد میں شاید ان کو احساس ہوا کہ انہوں نے تو اپنی کم علمی اور نالائقی پر مہر ثبت کر دی ہے۔تو مزید اضافہ فرمایا کہ دراصل جس دن یہ بل منظور کیا گیا اس دن ہمارے ممبران موجود نہیں تھے۔دونوں باتیں جھوٹ تھیں۔
اب آئیں عدلیہ کی طرف۔پاکستان کی عدلیہ انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے دنیا میں کس نمبر پر ہے ؟ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ پاکستان کی عدلیہ دنیا بھر میں نچلی ترین صف میں ہے۔جسٹس منیر ‘جسٹس انوار الحق اور جسٹس نسیم حسن شاہ کے فیصلوں نے پاکستان کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔جسٹس منیر نے ایک آمر کی خوشنودی کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے پوری کی پوری اسمبلی بحیرہ عرب میں پھینک دی۔ بھٹو کو پھانسی دینے کے سال ہا سال بعد جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ان پر بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کیلئے دباو تھا۔ ایمانی طاقت اور اخلاقیات سے محروم شخص ۔اسی عدلیہ نے ایک آمر مشرف کو آئین کی ایسی کی تیسی پھیرنے کی تحریری اجازت دی ۔ایک وفاقی وزیر نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں الزام لگایا کہ سابق آرمی چیف جناب باجوہ کے دباو پر دو جونئیر ججوں کو سپریم کورٹ کا جج لگا دیا گیا۔ اس پس منظر میں عدلیہ عملی طور پر اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔مشہور و معروف قانون دان اور سابقہ وزیر قانون اعتزازاحسن نے اسی ہفتے یہ بات بار بار دہرائی کہ بینچ دیکھ کر ہی پتہ چلتا ہے کہ فیصلہ کیا آئیگا۔ ایسی صورت میں عدلیہ کن لوگوں سے توقع رکھتی ہے کہ اس کی حمایت میں آگے آئیں گے ؟ ۔اب آئیے خلائی مخلوق کی طرف۔ قائد اعظم نے ایوب خان کو ناپسندیدہ قرار دے کر مشرقی پاکستان بجھوانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن یہی ایوب خان اپنی سازشوں کے بل بوتے پر بعد میں تاریخ رقم کر گئے کہ آرمی چیف ہوتے ہوے نہ صرف کابینہ کا رکن بن کر وزیر دفاع بنے بلکہ بعد میں مارشل لا لگا کر خود ساختہ فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔قابلیت بس اتنی کہ امریکی مفادات کے لئے بلا سوچے سمجھے سیٹو اور سینٹو جیسے بے مقصد اداروں میں پاکستان کو پھنسا لیا اور پاکستان کی اپنی کوئی اسلامی شناخت قائم نہ ہونے دی۔جاتے ہوے یہ کارنامہ کرلیا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے جنرل یحیی خان کو سونپ دی۔یا یحیی خان نے ڈنڈے کے زور سے لے لی۔اور اس نے آتے ہی دو ڈھائی سال میں آدھا پاکستان گنوا دیا۔جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے کارنامے تو کل پرسوں کی باتیں ہیں کہ جو خدمات ان دونوں فوجی آمروں نے امریکہ کیلئے افغانستان میں انجام دیں۔اور ان بے چہرہ جنگوں میں پاکستان کو اندر سے تار تار کر کے اپنے ہزاروں شہری اور فوجی جوان شہید کروادئیے۔انہی خدمات کے بدلے ایک مضبوط نمائندہ پارلیمنٹ پاکستان کے سارے قرضے معاف اور کشمیر کا قضیہ صاف کر سکتی تھی۔لیکن ان دونوں آمروں نے پاکستان کیلئے کچھ مانگنے کی بجائے اپنی کرسی کی بقا مانگی۔ آخری نتیجہ ایک منتشر اور دیوالیہ پاکستان ” ۔
بابا جی خاموش ہوے تو میں نے سوال کیا کہ کیا اصلاح کی کوئی صورت باقی ہے۔ اور کیا تینوں بڑی پارٹیوں کے درمیان کوئی اتفاق رائے معاملات کو سدھار سکتی ہے۔باباجی نے فورا نفی میں سر ہلایا اور فرمایا”کس بات پر اتفاق رائے ؟ اقتدار پر اتفاق رائے ؟ ریوڑھیاں آپس میں بانٹنے ہر اتفاق رائے۔اپنے بیٹوں’بیٹیوں’بھانجوں’ بھتیجوں’حتی کہ سالوں اور سالوں اور سالیوں تک کو جمہوریت کے نام پر عوام کے کے سروں پر ہمیشہ کیلئے مسلط رکھنے پر اتفاق رائے ؟ نہیں اب ایسی چالبازیوں سے پاکستان مزید نہیں چل سکتا۔ نہ بیرونی قرضے ادا ہو سکتے ہیں اور نہ کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو سکتی ہے۔اب کچھ آئوٹ آف بکس کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے موجودہ پاکستانی ہجوم کو ایک ایماندار’ باکردار اور میرٹ پر چلنے والی قوم بنانے کیلئے سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو ملک چلانے کیلئے ایک نیا عمرانی معاہدہ کرنا ہوگا۔اپنی ذاتی اور خاندانی مراعات اور خواہشات کی قربانی دینی ہو گی ۔پارٹیوں کو خاندانی میراث بنانے کی بجائے انٹرا پارٹی انتخابات کے ذریعے پارٹیوں کے قابل ترین اور دیانتدار اشخاص کو آگے آنے کا موقع دینا ہوگا۔سرکاری ملازمتوں اور سرکاری ٹھیکوں میں میرٹ کا نظام سختی سے نافذ کرنا ہوگا۔اور اس میں اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرنے والے کو ہمیشہ کیلئے نا اہل کرنا ہوگا۔احتساب کا فول پروف نظام قائم کر نا پڑے گا۔ناجائز طور پر کمائی گئی اور باہر رکھی گئی دولت رضاکارانہ طور پر واپس کرنے اور توبہ تائب ہونے والے کو ایک ٹروتھ اینڈ ری کونسلئیشن کمیشن کے ذریعے رعایت دی جا سکتی ہے۔
بابا جی خاموش ہوے تو میں نے ہلکے سے کہا کہ موجودہ حالات میں تو کسی ایسے عمرانی معاہدے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ تو بابا جی فورا بولے ” تو پھر اس مجوزہ عمرانی معاہدے کے بغیر صرف باری باری اقتدار کے مزے لوٹنے اور پاکستان کو مذید دیوالیہ کرنے پر تینوں بڑی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے ہو بھی تو ایسی منافقانہ اتفاق رائے نہ تو پائیدار ہوگی اور نہ ملک و قوم کو اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔اس لئے کسی اور کو پس پردہ رہ کر اور اپنی چھڑی لہرا کر اس عمرانی معاہدے پر عمل کروانا ہوگا۔اس کے بغیر 2023 کے کسی بھی مہینے میں کرائے جانے والے الیکشن فساد ہی لائیں گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ” ۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب