مسلم دنیا کے لئے نوید !

عید کی حقیقی مسرت کا روح افزاں احساس ابھی جیسے یمنی شہر ی محسوس کر رہے ہونگے ، شاید ہی کوئی اور اس کا ادراک کر پائے گا۔ سالوں سے خانہ جنگی کے شکار یمنی جو بے کسی اور بے بسی کی حالت میں گروہوں میں تقسیم حوثی باغیوں اور حکومت کے مابین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خونی کھیل کا شکار بن رہے تھے ، آج ہلال عید، ان کے لئے اس خونی کھیل کے خاتمے کی نوید لے کر آیا ہے۔ آپ کو شاید یاد ہوگا ہے کہ چائنا کی وساطت سے سعودیہ اور ایران کے مابین تعلقات کی بحالی کے حوالے سے میں نے ذکر کیا تھا کہ اب اس کے خوش آئند نتائج پوری مسلم دنیا پر مرتب ہونگے اور فورا ہی ہم نے اس کو حقیقت ہوتے دیکھ بھی لیا ہے ۔ سعودیہ اور ایران علاقائی برتری کی ڈور اور مسلم دنیا کی لیڈنگ ریاست بننے کی خواہش میں بے دردی سے یمن میں معصوم شہریوں کے قتل میں برابر کے شریک رہے ہیں ۔باغیوں کو ایران جبکہ ،حکومت کو مسلسل سعودیہ عرب کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ دونوں ریاستوں نے اپنے” پاور شو "کے لئے یمن کو پراکسی ریاست کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا ۔ اس طاقت کی جنگ میں انہیں کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ انسانیت کو مسخ کرنے والے کس گھنائونے کھیل کا حصہ بن رہے ہیں ۔ آپس میں ہی مسلمان، جب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں ،تو کس منہ سے یہ اپنے ہی خطے کے مظلوم فلسطینوں کے لئے آواز اٹھا سکتے ہیں ؟جبکہ، انہی ریاستوں نے اپنے خطے میں خون کی رنگولی رچا رکھی ہو۔ اس وقت یمن کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جبکہ حالیہ رپورٹز کے مطابق ، 56000 یمنی شہری اس خانہ جنگی کی آگ کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہوچکے ہیں۔ یمن کی حکومت ترقیاتی کاموں، تعلیم اور صحت پر خرچ ہونے والے سارے اخراجات حوثی باغیوں سے مقابلے کی نذر کر دیتی ہے ۔
یمن کی خانہ جنگی 2014 میں اس وقت شروع ہوئی جب حوثی باغی، ایران سے روابط رکھنے والے شیعہ باغی گروہ اور سنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوریمن کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر صنعا پر قبضہ کر لیا، جس میں انہوں نے ایندھن کی قیمیتیں کم کرنے اور نئی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ یمن خانہ جنگی ،وہ جنگ ہے جو سات سال پہلے شروع ہو کر گذشتہ چند ایام قبل جنگ بندی کے اعلان سے پہلے تک جاری تھی۔تاہم، یمن کی حکومت میں فساد، انحصار اور خود خالی پن کی وجوہات کی بنا پر اس جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کودو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف حوثی ہیں ،جو باغیوں کا ایک گروہ ہے اور ایران کی امداد سے حکومت کا سامنا کر رہا ہے اور دوسری طرف یمن کی قانونی حکومت جسے سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔آپس میں اس جنگ کے باعث یمن کے لوگوں کو بے شمار مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔ جن میں غذا، دوا، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی کمی شامل ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یمن کے اس طویل مسلح تنازعہ اور انسانی بحران نے بچوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔ یونیسیف کے مطابق، یمن میں 13 ملین بچوں کو انسانی امداد کی فوری ضرورت ہے جبکہ،2ملین اندرونی طور پر بے گھر ہیں، اور10,200سے زیادہ بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔ کیا یہ انسانیت کو شرمانے والے مکروہ عمل کے اعداد و شمار نہیں ہیں؟ اپنے ہی ہم مذہبوں اور انسانیت کے تاریک ہوتے منظر میں سعودیہ عرب اور ایران ایک دوسرے پر فاتح قرار دیئے جانے کے لئے اپنے انسانی اور مالی وسائل کا ضیاع کرتے رہے ہیں۔ اس جنگ کی تباہیاں اس حد تک تھیں کہ بین الاقوامی اداروں نے بھی اس جنگ کو دنیا کی سب سے بڑی انسانی خانہ جنگوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ یمن خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے مگر سب بے سود ثابت ہوئے ۔ ایک غیر مسلم ریاست، چائنا کی جانب سے یمنی شہریوں کو عید کا یہ تحفہ ملا کہ ان کے ملک میں مسلم ریاستو ں اور انکی اپنی ہی حکومت و باغیوں کے باعث شروع ہونے والے اس خونی کھیل کا خاتمہ نصیب ہوا۔
جہاں یہ لمحہ وجہ مسرت ہے، وہیں یہ بہت تشویش ناک بھی ہے کہ مشرق وسطی کے مسلم ممالک سفارتی طور پر اتنے کمزور ہیں کہ وہ اپنے آپس کے معاملات مذاکرات کے ذریعے کبھی خود حل نہیں کر سکتے ہیں ۔باہمی مذاکرات کی ناکامی وہ دردناک پہلو ہوتاہے جو ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ علاقائی سطح پر اس کی مثال اگر مڈل ایسٹ ہے تو ریاستی سطح پر اس کی مثال پاکستان سے بہتر کیا ہوسکتی ہے؟ جہاں سیاسی پارٹیز کے درمیان سیاسی مفاہمت نہ ہونے اور مذاکرات کی کی ٹیبل پر نہ آنے کی ہٹ دھرمی نے آج اس ریاست کو بھی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر لا چھوڑا ہے ،تو وہیں اندرونی خلفشار ، ملکی استحکام کے لئے سوالیہ نشان بن رہا ہے۔اپنے بل بوتے پر مذاکرات نہ کر پا نا اور ہمیشہ ثالثی کے انتظار میں ہی رہنا خود ریاستوں یا اس کی سیاسی پارٹیز کی سفارت کاری کی شدید ناکامی کا ثبوت ہے۔ کیونکر ثالثی کروانے والی ریاستیں بھی اپنے ہی مفادات کو اولین ترجیح دیتی ہیں ۔ یا اگر یہ ثالثی عالمی اداروں کے ذریعے ہو تو ان پر بھی ،کہیں نہ کہیں عالمی طاقتوں کا دبائو ہوتا ہے۔ بہرحال۔ مڈل ایسٹ کے تناظر میں یہ شدید خطرناک ہے کیونکہ وہاں اسرائیل بھی اپنے پنجے گاڑ چکا ہے ، لہذا اب ان ریاستوں کو چاہیئے کہ خود اپنے خطے کے استحکام کے لئے متقاضی حکمت عملیوں کو اپنائیں۔
بہرحال،یہ تمام عوامل بہتری کی روشن امید لے کر آرہے ہیں۔ سعودیہ اور ایران مفاہمت سے نہ صرف یمن میں امن ممکن ہوسکا ہے بلکہ، یہ او آئی سی کے پلیٹ فارم کو بھی مستحکم کرئے گی تو ،ساتھ ساتھ اس سے مسلم یکجہتی کے بڑھنے سے عالمی فورمز پر کسی بھی مسئلے کے حوالے سے آواز بلند کرنا زیادہ موثر ثابت ہوسکے گا۔ اسے مستقل میری رجائیت پسندی سمجھئے کہ مجھے خطے سے دور، ان تمام احسن معاملات کے اثرات پاکستان پر بھی پڑتے نظر آرہے ہیں ۔ کیونکہ یمن میں جنگ کے وقت سعودیہ نے پاکستان سے فوجی امداد کا تقاضا کیا تھا اور مسلم ریاست پر فوج کشی کرنے سے پاکستان نے انکار کر دیاتھا ۔ جس کے نتائج ہمیں سعودیہ کے ساتھ خراب ہوتے تعلقات کی صورت میں بھگتنے پڑے تھے۔ بہرحال، دیر آئے پر درست آئے کے مترادف ، اس کے خوش کن اثرات ہر ریاست کو انفرادی طور پر اور مسلم دنیا کو مجموعی طور پر امن فراہم کرئیں گے۔ جس میں سعودیہ کے لئے اپنے وسائل کو ترقیاتی اہداف کی طرف تو ،ایران کواپنے وسائل کو نیو کلیئر کے حصول پر لگانے کا موقعہ میسر آ سکے گا۔ مزید برآں، ایران بالخصوص سعودیہ اور چائنا کے ذریعے عالمی طور پراپنے تنہا کئے جانے کا مقابلہ کر سکے گا۔ عید کے اس موقعے پر ایک ایسی ہی تمنا کشمیریوں ، فلسطینوں ، شامیوں اور برما کے مسلمانوں کے لئے بھی اٹھی ہے ۔ کیونکر:
یہی دن اہل دل کے واسطے امید کا دن ہے !

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے