اسے نظرانداز نہ کریں

تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ بیچ دو فریقین کے ہمیشہ ایک تیسری قوت موجو د ہوتی ہے جو دونو ں کے بیچ رہ کر اپنا الو سید ھاکرتی ہے چنا نچہ پاکستان کی سیا سی تاریخ اس امر کی گواہ یا نشان زدہ قرار پاتی ہے چنانچہ پر ویز مشر ف کے دور میں پاکستان کی دو بڑی سیا سی جماعتوں نے اس امر کو محسو س کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کا ڈول ڈالا تاہم بے نظیر کی دنیا سے رخصتی سے یہ میثاق پنپ نہ پایا ظاہر ہے کہ اس کو پزیر ائی کیسے مل سکتی تھی کیو ں کہ تیسری طاقت خود کو اس میثاق کے ذریعے ہر گز کھونے نہیں دے سکتی تھی چنا نچہ جب پی پی نے پرویز مشرف کو تخت آمرانہ سے اتار دیا اور بمطا بق میثاق جمہوریت مسلم لیگ ن کے ساتھ جڑ کے حکومت سازی کی تو یہ جو ڑی چند رو زہ ہی چلی اورپھر ماضی کی طرح اپنے اپنے ڈھپ پر چلی گئی ، لیکن ماضی کے سیا سی چرکو ں ٹیسیں موجو د رہیں جو پی ڈی ایم کی صورت میں مرہم بنی ۔ اس جائز ہ سے پتہ لگتا ہے کہ حالا ت کا رخ کبھی یک طرفہ نہیں رہتا ہے چنا نچہ سیاسی حقائق یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیا سی حکومتوں کی مدت پوری نہ ہو نے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہی رہی کہ ایک پیچ تریتب دینے والو ں کی کبھی تین چار سال سے زیا دہ رفاقت کسی سیا سی جماعت کے ساتھ نہیں رہی چنا نچہ تیسری سیا سی قوت جو پی ٹی آئی یا دوسرے الفا ظ میں عمر انی سحر کی صورت مقوی بنائی گئی تھی وہ بھی ماضی کے سیاسی صفحہ کی طر ح چٹ صاف ہو کر رہ گئی ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تیسری قوت ہمیشہ دو نوں اطراف کی وکٹوں پربیک وقت کھیلتی ہے چنانچہ جب عمران خان کے خلا ف عدم اعتما د کا طو فان اٹھا ہو ا تھا تب سے اب تک یہ محسو س کیا جا تا رہا ہے کہ ایک ہی وقت میں وکٹوں کی دو نو ں اطراف میں گیند اچھالنے والے اب بھی ویسا ہی کھیل کھیل رہے ہیں چنا نچہ عمر ان خان جن کے بارے میںیہ تاثر یہ ہے کہ جو بے تکان بولتے چلے جا تے ہیں اور یہ حواس ہی نہیں رکھتے کیا بولا تھا اور کیا بول رہے ہیں تاہم ایسی کیفیت میں بھی حقائق منہ سے نکل ہی آتے ہیں چنا نچہ انھوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں فرمایا کہ انھو ں نے جنرل (ر)قمر جا وید باجوہ کے کہنے پر پنجا ب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کرائیں ،مان لیتے ہیں کہ عمر ان خان نے قمر جا وید باجوہ سے ایک پیچ کی یکجہتی کے اظہار
کی خاطر یہ قدم اٹھایا ، لیکن زمینی حقائق پوری طرح اس با ت کو تسلیم نہیں کر پارہے ہیں کیو ں کہ پنجاب اسمبلی 14جنو ری 2023اور کے پی کے اسمبلی 18 جنوری 2023کو توڑی گئیں جبکہ قمر جا وید باجوہ 29نومبر 2022آرمی سبکدوش ہو گئے تھے یو ں وہ ایک پیچ سے بھی صفحہ بد ر ہو چکے تھے ، کہا جاتا ہے کہ صدر عارف علو ی نے ان دونو ں شخصیا ت کی ایک ملاقات کا اہتما م ایوان صدر میںکرایا تھا جس میں شاید ایسا مشورہ دیا گیا کہ عمر ان خان اگر نئے انتخابات کر انے کی خواہش رکھتے ہیں تو وہ اسمبلیا ں تحلیل کر دیں لیکن اس ملا قات کے بارے میں شنید یہ بھی ہے کہ دوران ملا قات کشید گی کی فضاء پیدا ہوئی اور دونو ںدائیں بائیں مڑ کر اپنی اپنی راہ ہولیے تھے ۔ لیکن عدم اعتما د کی جا تحریک چلی تھی اور کرسی اقتدار کھسک جانے کے بعد میر جعفر اور میر صادق جیسے القابات کی بھر ما ر عمر ان خان کی جانب سے ہورہی تھی پھر کیسے ممکن تھا کہ کوئی مشورہ صالح دیا جا تا ۔ پھر عمران خان ایک جمہو ری قوت ہیں چنا نچہ وہ کیو ں کر غیر جمہو ری قوتوں کے اشارے پر چلتے رہے اور من وعن عمل پیرا بھی رہے ، عمر ان خان نیا زی یہ بھی فرما تے ہیں کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے ذریعے گرائی گئی ان کایہ دعویٰ بھی سامنے پڑ اہو ا ہے کہ باجو ہ صاحب ان کی حکومت گرانے کے محرک ہیں اب تازہ ادعا یہ ہے کہ امریکا نے ان کی حکومت نہیں گرائی اور نہ وہ امریکا کے خلا ف ہیں بلکہ ان کی حکومت پاکستان کے اندر سازش کر کے گرائی گئی ، اشارہ ان کا پھر بھی وردی کی طرف رہا ،خیر اب یہ سوال یا کھو ج بے معنی ہو کر رہ گیا ہے کہ حکومت کس نے گرائی یا کسی نے نہیں گرائی اہم بات اسمبلیلوں کی تحلیل کر نے کا ہے جمہوریت کا اہم ترین ستون اسمبلیاں ہو تی ہیں کیو ں کہ اقتدار میں شراکت کے حقدار ریا ست کے عوام ہی ہو تے ہیں ان کے سوا کسی کو یہ حق حکمرانی نہیں ہے ، جس کا واحد طریقہ پارلیمانی طر ز حکومت ہے ، پارلیمنٹ میں عوام اپنی نمائندگی کے لیے اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے نمائندے چنتے ہیں تاکہ وہ اسمبلی ان کی نمائندگی کریں چنا نچہ اس نکتہ نظر سے عوام کی منتخب اسمبلی ہی طا قت کا منبع قرار پاتی ہے ایسے میں کیا کسی فرد واحد کو یہ حق حاصل ہو سکتا ہے کہ اپنے سیا سی مقاصد یا اپنے اقتدار کی خاطر عوامی نمائندگی کا خون کردے ، اسمبلی نے اسی ناجائز اختیا رکی وجہ سے آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کا خاتمہ کیا تھا کہ ایک فرد واحد اپنی انا کی خاطر نمائندہ ایوان کو چلتا کر دیتا تھا ، چنا نچہ عمر ان احمد خان نیا زی کے اس اعتراف کے بعد یہ نقطہ واضح ہو گیا ہے کہ آئینی طور پر ایسے کوئی حالا ت نہیں پائے جا تے تھے کہ دونو ں صوبوں کی اسمبلیو ں کو تحلیل کر دیا جا تا ایسا صرف اور صرف سیا سی مفاد اٹھانے کی بنا ء پر کیا گیا ہے ، اور اس کا فیصلہ بھی غیر متعلقہ افراد نے کیا ۔ اب یہ سوال زندہ ہو گیا ہے کہ دونو ں صوبوں کی اسمبلیوںکو آئین کے تقاضوں کی بنیا د پر توڑ ا گیا اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر کیا غیر آئینی اقدام سے اسمبلیاں ٹو ٹ گئیں ، دونو ں صوبوں میں انتخابات کے بارے میں سومو ٹو پر جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نو ٹ میںعمر ان خان کے قمر باجوہ کے بارے میں اعتراف سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ” ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ کسی شخص کے کہنے پر اسمبلیا ں تحلیل کی جا سکتی ہیں ” عمران خان کی اس گواہی کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ کے مطا بق اسمبلیاں تحلیل کر نے کے آئینی عمل کا جائز ہ لیا جائے ، جس کے بعد نوے دن میںانتخابات کا معاملہ بھی خود حل ہو جائے گا ، فکر مندی کی بات یہ ہے اس جو از کوتلا ش کر نا لا زمی ہو گیا ہے کہ کیا اسمبلیاں تو ڑنا آئینی اقدام تھا کیو ں کہ سابق وزیر اعلٰی پرویز الہی کی جو آڈیو لیگ ہوئی ہے جس میں وہ فواد چودھری کو بہت اچھے الفاظ میںیا د کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر فواد چودھری پہلے گرفتا رہو جاتے تو اسمبلیاں بچ جا تین جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ فواد چودھری بھی اسمبلیو ں کے توڑنے میں شریک کا ر فرما ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجا ب اسمبلی توڑ نے پر رضا مند نہیں تھے باامر مجبوری انھوں نے اقدام کیا ۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''