خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں نے عید کے ایام کو بھی دہشت گردی کے موقع کے لئے استعمال کیاسوات میں ممکنہ طور پر اور لکی مروت میں واضح طور پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں اگرچہ سوات میں کبل پولیس لائن کے اندردھماکہ کوحادثہ گردانا جارہا ہے لیکن جب تک اس کی جامع اور مکمل تحقیقات نہیں ہوتیں اس وقت تک پولیس افسران کے بیانات کو بلاوجہ کی عجلت قرار دینا غلط نہ ہوگا جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کی تحقیقات شواہد اکٹھاکرنے اور نتیجے پر پہنچنے میں وقت لگتاہے خواہ وہ حادثہ ہی کیوں نہ ہو اس بارے میں ابتدائی خیال اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی جب تک اس کی مکمل تحقیقات کے بعد کوئی نتیجہ اخذ نہ کیا جائے عید الفطر کے تیسرے روزسوات اور لکی مروت میں واقعات سے عید بھی خون رنگ ہوگئی اس پر سوگواریت فطری امر ہے ۔ لکی مروت میں ہونے والے دو واقعات کی صورتحال واضح ہے البتہ سوات والا واقعہ پولیس افسران کی جانب سے حادثہ قرار دیئے جانے کے باوجود بہت سے سوالات کاباعث ہے اس ضمن میں عوامی سطح پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں نیز بنوں اور پشاور کے بعد اب سوات میں اسی طرز کا ایک واقعہ خود پولیس کے حفاظتی اقدامات اور تیاریوں کے حوالے سے بھی سوالات کا باعث ہے بہرحال ابتدائی تحقیقات یا پھر ابتدائی رائے کے مطابق یہ حادثہ تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے غیر محفوظ طریقے سے دھماکہ خیزمواد کو رکھا کیوں گیا تھا کسی ماہر کی رائے لے کر جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا اور پھراس کے انتظامات کو حفاظتی نقطہ نظر سے وقتاً فوقتاً جائزہ لینے کی ضرورت بھی محسوس کی گئی غفلت اور لاپرواہی کی گنجائش ہر جگہ رہتی ہے دوسری کوئی صورت بھی حادثے کی ہوسکتی ہے ہمارے نمائندے کے مطابقکبل پولیس لائن سوات میں امن کے قیام کے بعد یو ایس ایڈ نے جدید طرز پر تعمیر کیا تھا اور یہ ضلع بھر کے 15 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کی مرکزی پولیس لائن ہے۔ اس پولیس لائن کے اندر مختلف دفاتر، پولیس بیرکس کے ساتھ سی ٹی ڈی پولیس کا تھانہ بھی ہے۔ دھماکہ میں زخمی پولیس اہلکاروں نے ہسپتال میں مشرق کو بتایا کہ وہ روز مرہ کے کام میں مصروف تھے کہ زور دار دھماکہ ہوگیا۔ تھانہ سی ٹی ڈی کے حوالات میں گرفتار دہشت گردبھی موجود تھے۔ ماہرین بم ڈسپوزل سکواڈ نے مشرق کو بتایا کہ ایک دھماکے کی آواز خود کش کی لگتی ہے اور دوسرے دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ گاڑی میں بارودی مواد ڈال کر اڑایا گیا۔بہرحال واقعے کی نوعیت جس قسم کی بھی تھی یکے بعد دیگرے پولیس کا نشانہ بننا اور پولیس کے محفوظ ترین علاقے اور مراکز میں اس طرح کے واقعات کی وجوہات اور عوامل جو بھی ہوں ان واقعات کی روک تھام اور پولیس مراکز کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری پولیس حکام ہی کی ہے اگر پولیس کے اپنے مرکزی علاقے محفوظ نہیں اور پولیس خود اپنے تحفظ میں ناکامی کا شکار ہے تو پھر عوام کی حفاظت کی ذمہ داری کیسے نبھا سکتی ہے پولیس غیر محفوظ کیوں ہے اور اس کے نظام میں کیاکیا خامیاں اور مشکلات ہیں اس حوالے سے پشاور پولیس لائنز دھماکے کے بعد جن اہلکاروں نے احتجاج کیا تھا اور بعض خامیوں کی نشاندہی کی تھی اگر ان کی آواز کو دبانے اور ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی بجائے ان کے خدشات کو دور کرنے پر توجہ دی جاتی ان کے تحفظات کا جواب دیا جاتا اور ان کی تسلی کرادی جاتی تو آج اس طرح کے ایک اور واقعے کے بعد لوگوں کے ذہنوں پر مختلف قسم کے سوالات نہ ابھرتے ۔ بہرحال اس واقعے کی جہاں مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے وہاں غفلت کا ارتکاب کرنے والے اعلیٰ افسران کے ازخود اعتراف کے بعد ان کو بھی کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کی ضرورت ہے خود ان کے اعتراف کے بعد یہ دھماکہ ان کی ناکامی اور بے احتیاطی کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے جس کے باعث قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ آئندہ کے لئے اس طرح کے واقعات و حادثات کے سدباب کے لئے صوبہ بھر کے تھانوں اور سی ٹی ڈی ٹی کے مراکز سمیت تمام حساس مقامات کے حفاظتی اقدامات پر نظر ثانی کی جائے اور اس امر کویقینی بنایا جائے کہ ماتحت اہلکاروں کی حفاظت اور خطرات کا سدباب کرنے کے لئے ممکنہ اقدامات اور وسائل موجود ہوں۔کبل دھماکہ دہشت گردی ہے یا حادثہ اس حوالے سے جامع تحقیقات کے بعد جو بھی رائے دی جائے زیادہ مناسب ہوتا۔
