آڈیو لیک کے موسم میں

پچھلے چند دنوں میں آڈیو لیکس سے پیدا ہونے والے تنازعات ہی نہیں خود ان آڈیوز میں ہونے والی گفتگو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ کے ایک جج مظاہر علی اکبر نقوی کے حوالے سے جو آڈیو سامنے آئی اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ردعمل تھا کہ میں نے آڈیو لیک کے بعد جسٹس مظاہر علی اکبر کو بنچ میں شامل کرکے خاموش پیغام دیا ہے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس کی خوش دامن صاحبہ اور سابق گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کے درمیان گفتگو کی مبینہ آڈیو سامنے آئی۔ آج خواجہ طارق رحیم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ایک مبینہ آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی دونوں آڈیوز میں کی گئی گفتگو سے اتفاق اور عدم اتفاق اپنی جگہ، البتہ یہ امر غور طلب ہے کہ ایک آڈیو میں اس امر پر ملال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ مارشل لا بھی تو نہیں لگارہے۔ دوسری آڈیو میں سپریم کورٹ میں الیکشن کیس کی گزشتہ سماعت بارے اشارے ہیں۔ معاملہ صرف ان دو تین آڈیوز تک محدود نہیں یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ آڈیو ویڈیو لیکس کے بڑے ناقد عمران خان ماضی میں ایجنسیوں کی جانب سے وزیراعظم تک کے ٹیلیفون ریکارڈ کئے جانے کا یہ کہہ کر دفاع کرتے رہے کہ ایجنسیوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ کیا درست اور کیا غلط ہے۔ اب وہ آڈیو لیکس کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ایجنسیوں کے کردار اور فرائض پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ حالیہ آڈیو لیکس اور آڈیوز میں ہوئی گفتگو پر بظاہر حکمران اتحاد کے رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں ماضی میں ان کا موقف مختلف ہوا کرتا تھا۔ تحریک انصاف کے سیینئر رہنمائوں مخدوم شاہ محمود قریشی اور فواد حسین چودھری کا یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ سپریم کورٹ آڈیو لیکس کا نوٹس لے یہ بھی کہ ایجنسیوں کا یہ کردار کس مہذب ملک میں ہے؟ اسی طرح وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی آڈیو لیکس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو محترم خواتین کی آڈیو لیکس میں ہونے والی گفتگو پر ہر پاکستانی کو گہری تشویش ہے، سپریم کورٹ اس معاملے پر سوموٹو نوٹس لے کر آڈیوز کا فرانزک کرائے تاکہ سچ عوام کے سامنے آسکے۔ آڈیوز کے فرانزک کے مطالبہ پر حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے رہنما یک زبان ہیں۔ فی الوقت فرانزک کی دو ہی صورتیں ہیں اولا یہ کہ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے ثانیا یہ کہ حکومت اس ضمن میں پہل کرے۔ زیادہ بہتر اقدام سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینا اور فرانزک کروانا ہوگا کیونکہ جس طرح کی سیاسی کشیدگی، کدورتیں، نفرتیں اس وقت جان لیوا امراض کی طرح ہمارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں یہ حکومتی اقدام اور نتائج کے مانع ہوں گی۔ بظاہر تو اس رائے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ چند حالیہ فیصلوں کی وجہ سے سیاسی عمل میں سرگرم سیاسی جماعتوں کی آرا سے جس طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت متنازعہ ہوئی ہے اس سے بنے ماحول میں سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس اور فرانزک کے نتائج اولا تو قابل قبول ہی نہیں ہوں گے اور ہوئے بھی تو ایک فریق فرانزک رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کردے گا جس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔
اس عمومی تاثر کو بہرطور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ آڈیو لیکس سے نہ صرف چند شخصیات کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ اداروں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار والی مبینہ آڈیو کی گفتگو صرف حیران کن ہی نہیں بلکہ اس نے اس اہم سوال کو بھی جنم دیا کہ انہیں کیسے معلوم تھا کہ الیکشن کیس کی پچھلی سماعت نصف گھنٹہ بھی نہیں چلے گی؟ بہرطور یہ حقیقت ہے کہ آڈیو لیکس نے ہمارے نظام کی برہنگی کو دوچند کردیا ہے کیا کوئی نجی گروہ اتنا طاقتور اور جدید آلات سے لیس ہے کہ وہ ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کرنے کے بعد انہیں مخصوص مقاصد کے لئے پھیلائے؟ ماضی قریب میں اس طرح کے آڈیو ویڈیو لیکس کے سلسلے پر متاثرین کا موقف تھا کہ ان کی مختلف مواقع کی گفتگوئوں کے ٹکڑے جوڑ کر آڈیو یا ویڈیو بنائی گئی ہے ان کے اس دعوے کی سچائی کہیں ثابت نہیں ہوئی نا انہوں نے اپنے دعوے کو لے کر کسی عدالت سے رجوع کیا کہ مبینہ طور پر بعض سازشی عناصر نے انہیں بدنام کرنے اور ان کے سابق اداروں کو دبائو میں لانے کے لئے جعلسازی کی ہے اس لئے آڈیوز ویڈیوز کا فرانزک عدالتی حکم پر کرایا جائے تاکہ حقیقت حال واضح ہو۔ حالانکہ اگر ان آڈیو ویڈیو لیکس کی زد میں آنے والی شخصیات یا خود حکومت ہی آگے بڑھ کر اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرلیتی تو کم از کم آڈیو ویڈیو لیکس سے مسائل پیدا کرنے والوں سے نمٹنا آسان ہوجاتا۔ افسوس کہ اس وقت بھی
ایک فریق ان آڈیو ویڈیو کو جعلسازی قرار دیتا اور دوسرا فریق یہ کہتا دکھائی دیا کہ آڈیو ویڈیو لیکس نے بہت سارے چہروں پر پڑا نقاب کھینچ لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں جو چند آڈیو لیکس ہوئیں اب اگر انہیں ہی ٹیسٹ کیس بناکر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے لے تو نہ صرف فرانزک ٹیسٹ سے حقیقت حال واضح ہوسکتی ہے بلکہ اس اقدام سے ان سازشی عناصر کی سرکوبی بھی ممکن ہے جو سیاسی عدم استحکام سے بنی فضا میں مزید زہر گھول رہے ہیں۔ یہ سازشی عناصر کون ہیں اور کن مقاصد کے لئے آڈیو ویڈیو لیک میں مصروف ہیں اس کا درست جواب تو موثر انداز میں آگے بڑھائے گئے کسی تحقیقاتی عمل سے ہی ممکن ہے۔ بادی النظر میں تو یہی لگ رہاہے کہ ماضی کی طرح حالیہ آڈیو لیک کی بھی تحقیقات کا ڈول نہیں ڈالا جائے گا حالانکہ مبینہ آڈیوز میں ہوئی گفتگو سے جو عمومی تاثر بنا وہ اچھا ہرگز نہیں بلکہ یہ تاثر ہی اس امر کا متقاضی ہے کہ سپریم کورٹ کسی تاخیر کے بغیر اس کا نوٹس لے کر فرانزک کرالے۔ یہ امر بجا ہے کہ کسی سرکاری ملازم یا کسی ادارے میں اعلی منصب کے حامل شخص یا اشخاص کے رشتہ داروں کے سیاسی نظریات اور جماعتی وابستگی قانونی طور پر قابل گرفت نہیں مگر گزشتہ اور حالیہ آڈیو لیکس کے معاملات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گفتگو کرنے والے عدالتی فیصلوں، سماعتوں، کیس مخصوص جج کے پاس لگوانے کی یقین دہانیوں کے ساتھ ایسی گفتگو کررہے ہیں جس سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران ہوئے بعض عدالتی فیصلوں، ازخود نوٹسوں کی سماعت اور چند دوسرے معاملات کی وجہ سے دو مرحلے میں ہوئی آڈیو لیک کو یکسر نظرانداز کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اندریں حالات ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور حکومت سے مودبانہ درخواست ہی کرسکتے ہیں اس آڈیو لیک کے معاملے کو نظرانداز کرنے کی بجائے ان کا فرانزک ٹیسٹ کرالیا جائے، جعلسازی ہوئی ہے تو مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور اگر مبینہ گفتگو درست ہے تو یہ ضرور دیکھا جانا چاہیے کہ کیا اس سے عدالتی معاملات پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے بنا تاثر بھی درست ہے ایسا ہے تو پھر بھی ملکی قوانین کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ نیز یہ کہ حکومت کو بھی کسی تاخیر کے بغیر ان آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنادینی چاہیے تاکہ یہ تو پتہ چلے کہ آخر وہ عناصر کون ہیں جو ریاستی ایجنسیوں سے زیادہ باوسائل ہیں کیونکہ اگر ایسا ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے اس الزام کی بھی تحقیقات ازبس ضروری ہے کہ مبینہ آڈیو لیکس کے پیچھے ملکی ایجنسیاں ہیں۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے