ابہام دور کرنے کی ضرورت

نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن کبل میں ہونے والے دھماکے کی اصل وجوہات کا تعین کرنے کے لئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جس کی روشنی میں سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اسپیشل برانچ پر مشتمل دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو اس واقعے کی اصل وجوہات کا تعین کرے گی۔ اس سلسلے میں یہاں سے جاری اپنے ایک بیان میں وزیر اعلی نے کہا ہے کہ دھماکے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لئے تحقیقات جاری ہیں تاہم ابھی تک دھماکے کی وجوہات کا حتمی طور پر تعین نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ دھماکہ دہشتگردی کا واقعہ ہے یا کسی حادثے کا نتیجہ، فی الحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا اگر چہ بظاہر دھماکہ کسی حادثے کا نتیجہ لگتا ہے لیکن تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی دھماکے کی اصل وجوہات کا تعین ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلی نے کہا ہے کہ اس وقت کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے، اس سلسلے میں بعض عناصر کی طرف سے سیاسی بیان بازی درست نہیں، یہ عناصر واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دریںاثناء انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات گنڈا پور نے کہا ہے کہ کبل پولیس لائن کے اندر تھانہ سی ٹی ڈی میں ہونے والا واقعہ دہشت گردی نہیں ہے۔ دھماکے تھانہ کے مال خانہ میں موجود بارود کے پھٹنے سے ہوئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی کیمروں اور گیٹ ریکارڈ کے مطابق کوئی غیر شخص پولیس لائن میں داخل نہیں ہوا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق مال خانے میں موجود بارودی سامان میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے متعدد دھماکے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کمیٹی بنائی گئی ہے جو اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے حقائق عوام کے سامنے لائے گی جبکہ پولیس لائن کبل دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک اہلکار کے مطابق سی ٹی ڈی تھانے کے جس کمرے میں بارودی مواد رکھا جاتا ہے، اس میں بجلی کا کنکشن پہلے ہی سے منقطع تھا۔ بارودی مواد والا کمرہ مرکزی عمارت سے ہٹ کر بنایا گیا تھا۔ برآمد شدہ بارودی مواد کمرے میں پہنچانے سے پہلے بم ڈسپوزل سکواڈ کے ذریعے ناکارہ بنایا جاتا ہے، جس وقت دھماکہ ہوا مَیں خود کوت میں موجود تھا۔ان کے اس بیان سے ممکنہ حادثے کے تاثر کی نفی ہوتی ہے دوسری جانب یہ بیھ قابل توجہ ہے کہ بم ڈسپوزل یونٹ کا کہنا ہے کہ دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حتمی طورپرکچھ نہیں کہا جاسکتا،ڈی پی اوسوات شفیع اللہ کا کہنا ہے کہ تھانے میں بارود اور گولے پڑے تھے، دہشتگردی کا پہلو بھی دیکھا جارہا ہے۔ کبل سی ٹی ڈی ٹی دھماکہ کے حوالے سے اول روز سے پولیس حکام کی جانب سے عجلت میں جن مبہم وجوہات پر زور دیا جارہا ہے اس سے معاملہ مشکوک ہوگیا وگر نہ اس طرح کے کسی واقعے کے بعد پولیس حکام ہمیشہ سے محتاط گفتگو کرتے ہیں اور جب تک جامع تحقیقات کے بعد کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آتی اسی پر رائے زنی سے گریز کیا جاتا ہے اور یہی مناسب صورت بھی ہے کبل کے واقعے کے بعد پولیس حکام بدستور بضد ہیں کہ اسے حادثہ قراردے کر نمٹا دیا جائے معلوم نہیں پولیس حکام کو اس کی جلدی کیوں ہے اور وہ جامع تحقیقات کی طرف متوجہ کیوں نہیں بہرحال یہ حادثہ ہوسکتا ہے لیکن پہلے تحقیقات کی جائیں شواہد اکھٹے کرکے اس کا تجزیہ کیا جائے عینی شاہدین کی رائے لی جائے ماہرین سے تجزیہ کرایا جائے اس کے بعد اسے حادثہ یادہشت گردی کی واردات جو بھی درست ہو قرار دیا جائے پشاور میں پولیس لائن مسجد دھماکہ کے وقت بھی پولیس کے مختلف بیانات سے معاملہ مشکوک ہوا بنوں میں پیش آمدہ واقعہ کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کبل تھانہ میں دھماکہ کی نوعیت کے حوالے سے صوبائی حکومت اور آئی جی خیبر پختونخوا کے بیان میں بھی تضادات میں آئی جی بضد ہیں کہ یہ حادثہ ہے جبکہ وزیر اعلیٰ کا اس حوالے سے موقف اور احکامات حادثہ کی مناسبت سے درست سمت قدم ہے دیکھا جائے تو کہ آئی جی اور دیگر پولیس افسران کے موقف کے رد کے لئے زخمی اہلکار کا بیان ہی کافی ہے یقینا ان کے بیان میں وزن ہے کیونکہ گولہ بارود ایسی چیز نہیں کہ لاکر سٹور میں پھینک دیا جائے اور اگر حفاظتی ہدایات اور طریقہ کار سے بالفرض محال احتراز کیا گیا تھا تب بھی اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے اور اس کی ذمہ داری بھی پولیس حکام ہی پرعائد ہو گی جن کی غفلت کے باعث یہ حادثہ رونما ہوا۔ زخمی اہلکار کے بیان کی روشنی میںدیکھا جائے اور غور کیا جائے تو اس طرح کا واقعہ حادثاتی طور پر رونما ہونے کا امکان کم نظر آتا ہے بہرحال جب تک معاملے کی جامع تحقیقات نہیں ہوتیں کم از کم اسے حادثہ گرداننے کی جلدی نہ کی جائے اور تحقیقات کے نتائج کا انتظار کیا جائے چونکہ پولیس نے خود اس معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے لہٰذا تحقیقاتی ٹیم میںمزید ماہرین کوبھی شامل کیا جائے تاکہ تحقیقات کو با اعتماد اور نتیجہ خیز ہوں۔

مزید پڑھیں:  پشاور کامقدمہ