لمحہ فکریہ

یہ بات تو مسلمہ ہے کہ کسی بھی ریاست کے استحکا م کے لئے سیا سی استحکام کے ساتھ ساتھ عدل اور قانون کی عملداری لازم ہے چنانچہ پاکستان میں استحکام کو بار بار جھٹکے ملنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قائم ہونے والی ہر حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی خود کو برقرار رکھنے کے لالے پڑ جاتے ہیں، اس سلسلے میں عوامی سطح پر پہلے کسی زمانے میں افواہ کا گر استعمال کیا جاتا تھا، اب تو ایسی تبلیغات کے کئی ذرائع میسر ہو چکے ہیں جس میں سب سے مؤثر سوشل میڈیا ہے، اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اس ذریعے سے سیاسی مفادات پانے کی سعی بسیارکی ہے لیکن اس میں جتنی کامیابی پی ٹی آئی کو ملی ہے اس کا عشر عشیر کسی دوسری پارٹی کے حصہ میں نہیں آیا، اسی طرف نظر ڈالی جائے کہ سوشل میڈیا کے بل بوتے میں عام کیا گیا کہ کپتان اکیلا ہے، دوسری جانب آٹھ سے زیادہ جماعتیں صف باندھے کھڑی ہیں اور خان کا ٹھینگا دیکھ رہی ہیں، کپتان کیا واقعی اپنی پی ٹی آئی کے ساتھ تنہا کھیل رہے ہیں، ایسا نہیں ہے چنانچہ سیاسی اتحادوں کی بناوٹ کو پرکھنے سے چَٹ پتہ چل جاتا ہے کہ کون کتنے پانی ہے اور کس پانی میں تیر رہا ہے، پی ٹی آئی کے مقابل جو سیاسی اتحاد پاکستان جمہوری تحریک کے نام سے کھڑا کیاگیا اس میں مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام ف، اے این پی، باپ، بی این پی، جمعیت اہل حدیث، جمعیت علماء پاکستان، قومی پارٹی اور بزنجو پختونخوا ملی پارٹی کل مل ملا کر نو سیاسی جماعتیں متحد ہوئی تھیں، پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت پی پی بھی شامل تھی تاہم بعد ازاں وہ اس اتحاد سے الگ ہوگئی تاہم اس کی سیاسی جدوجہد پی ڈی ایم کی طرح جاری رہی، تحریک عدم اعتماد کے دوران پی ٹی آئی سے جڑی جماعتیں الگ ہو گئیں، الگ ہونے والی جماعتوں کے ووٹ سے عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد کامیابی سے ہم کنار ہوئی، دوسرے الفا ظ میںکہا جاتا ہے کہ اگر عمران خان کے اقتدار میں ہم رکاب ساتھی ساتھ نہ چھوڑتے تو شاید تحریک اعتماد کی کامیابی ممکن نہ ہوتی، عمران خان شاید کوئی الگ سے ایجنڈا رکھتے ہیںکہ انہوں نے روٹھ جانے والے اتحادیوں کو منانے پر کوئی توجہ نہیں دی، گویا ان کو روٹھے ہونے سے کوئی غرض نہیں تھی اور نہ ان کی اہمیت تھی، اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے ابھی تک اس امر کا جائزہ نہیں لیا کہ ساتھی کیوں بچھڑے، البتہ وہ اپنے خلا ف امریکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اور عوام کے ذہنوں میں یہ بٹھایا کہ ان کے خلا ف امریکا نے سازش کی ہے اور ثبوت کے طور پر امریکی سائفر لہراتے رہے لیکن اپنے اقتدار کے بارے میں ایک سال کے دوران کئی کٹھی مٹھی کہانیاں سناتے رہے حتیٰ کہ یہ کہہ کر کے امریکا نے ان کے خلاف سازش نہیں کی بلکہ جنرل باجو ہ نے کی، یہاں یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب باجوہ نے ان کے خلاف ساز ش کر کے محروم اقتدار کیا اس کے باوجود وہ باجوہ سے ملا قات کے متمنی کیوں رہے اور اسے بے چینی کا بار بار اعادہ بھی کرتے رہے، یہاں تک کہ حال میں بھی یہ انکشاف کر دیا کہ
انہوں نے قمر جاوید باجوہ کے مشورے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑیں جبکہ باجوہ کے ساتھ ان کا قرطاس ابیض سیاہ ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا، قرطا س ابیض بھی ایک ہی رہا، حیرت کی بات ہے، گفتگو ہو رہی تھی کہ کپتان کے خلاف کتنی جماعتیں صف آراء ہیں ان میں نو جماعتیں پی ڈی ایم کی ہیں اور باقی ان کے اتحاد، جو اتحاد روٹھے وہ صف آراء نہیں ہیں بلکہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ شریک اقتدار ہیں، ان کو عمران خان کی مخالفت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ان میں پی پی بھی شامل ہے جو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے، اب جائزہ لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد میں ان کے ساتھ کتنی جماعیتں اتحادی ہیں ان میں پی ٹی آئی، عوامی راج پارٹی، مسلم لیگ ق کا مونس الٰہی گروپ جو اب پی ٹی آئی میں ضم کر دیا گیا ہے، مسلم لیگ ضیاء یہ گروپ بھی ضم ہو گیا ہے، عوامی مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام طارق جمیل گروپ، گو اس گروپ کی باقاعدہ تنظیم نہیں ہے لیکن اس گروپ کے ہم مسلک علماء ساتھ دے رہے ہیں، جمعیت علما ئے اسلا م مولانا شیرانی گروپ، جی ڈے اے پگاڑا گروپ، پیر گولڑا یوتھیا گروپ، پیر سیالوی گروپ، جمعیت علمائے اسلام مولا نا سمیع الحق گروپ، صوبہ پنجاب محاذ خرم لغاری معہ عثمان بزدار گروپ، گویا تقریباً سترہ جماعتیں کپتان کے ساتھ کھڑی ہیں، پھر کیسے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کپتان تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے، اگر پی ٹی آئی کے موجودہ اتحادیوں کا جائز ہ لیا جائے تو ان میں مذہبی گروپ کی بڑی اکثریت نظر آتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ سیاسی اتحادوں کے باوجود جتنی بھی سول حکومتیں بنیں وہ پوری مدت تک برقرار نہیں
رہیں، کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ کی گزشتہ حکومتوں نے مدت پوری کی مگر اس میں وزیراعظم عام حالت کے مطابق تبدیل نہیں ہوئے پہلے سول حکومتوں کو مارشل کے ذریعے پھر اسٹبلشمنٹ کے ذریعے اور عدالتوں کے سہارے سے چلتا کیا گیا چنانچہ بات حقیقت رکھتی ہے کہ جب تک عوام کی منتخب حکومت کو استحکا م نہیںملے گا اور وہ اپنے پورے حقوق کے ساتھ حکمرانی نہیں کرے گی، تب تک ملک میں نہ تو قومی اداروں کو تحفظ حاصل رہے گا کہ وہ اپنے آئینی و قانونی دائرہ میں کا م کریں اور نہ ملک ترقی پائے گا، نہ اقتصادی، معاشی، تعلیمی، الغرض کسی بھی قسم کی آسودگی اور استحکام نہیں مل پائے گا، پاکستان کی جمہوری طاقت پارلیمان ہی ہے اور اس کو سبھی پر فوقیت حاصل ہے، اس کی راہ میں رکاوٹ کا مطلب پورے نظام میں بندشیں جڑ دینا ہے پھر یہ جمہو ری توانائی کا ذریعہ سیاسی جماعتیں ہیں، اگر دیکھا جائے تو ماضی کی تمام پیچیدگیوں کی ذمہ داری بھی ان سیاسی قیادتوں کی جھولی میں پڑی رہتی ہے کیوں کہ شوق اقتدار کی خاطر ان کو غیر جمہوری طاقتوں کا بازو پکڑتے دیکھا گیا اور سیاسی قیادت کے بل بوتے پر ہی غیر جمہو ری عنا صر مضبوط ہوئے، جس کی تازہ مثال پی ٹی آئی کا طرز عمل ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے طاقتوروںکو ہی پکارتی رہی ہے اور اقتدار جانے کے بعد بھی وہ اسی سہارے کی متلاشی بے چینی اور بے کل ہو کر رہی ہے، کبھی ایو ان صدر کو اپنی تسلی کے لئے طاقتوروں سے راہ و رسم بڑھانے کی سعی کی گئی تو کبھی کسی اور مقام کو استعمال کیا گیا، مختصراً جب تک جمہوری اور عوامی طاقتیں اپنے آپ پر بھروسا نہیںکریںگی ملک کے حالا ت نہیں سدھر سکتے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس