” برمودہ ٹرائی اینگل” کا تیسرا شکار؟

آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوتے ہی پارٹی بحران در بحران کا شکار ہوتی جا رہی ہے، پارٹی کی اکثریت حکومت کا حصہ بن گئی ہے، زمان پارک میں ہونے والے اجلاس میں پارلیمانی پارٹی کے صرف سات ارکان شریک ہوئے اور اسی اجلاس میں پارٹی کے نئے صدر اور پارلیمانی لیڈر کے ناموں کا اعلان بھی کیا گیا اور حکومت کا حصہ بننے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کی منظوری بھی دی گئی، یوں پارلیمانی پارٹی کی اکثریت نے زمان پارک کی بجائے مظفرآباد کے منسٹرز بلاک کا انتخاب کر لیا ہے، پی ٹی آئی آزادکشمیر میں اس انجام کا شکار ہونے والی پہلی جماعت نہیں بلکہ اس سے پہلے سیاست کے اس برمودہ ٹرائی اینگل میں آزادکشمیر کی دو مقبول اور معروف سیاسی جماعتوں لبریشن لیگ اور مسلم لیگ کانفرنس کے ٹائی ٹینک بھی ڈوب چکے ہیں، یہ دونوں کشمیر کے اندر فیصلہ سازی کے مراکز رکھنے والی جماعتیں تھیں جنہیں عرف عام میں ریاستی جماعتیں کہا جاتا تھا، ایک جماعت کی قیادت کے ایچ خورشید جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے پاس تھی اور دوسری جماعت کی قیادت زیادہ تر ایک دلیر اور دبنگ شخصت سردار عبدالقیوم خان کے پاس رہی، دونوں جماعتوں کے کمزور ہونے کا عمل ان قائدین کی زندگی میں ہی شروع ہوا اور ان کے جہان فانی سے کوچ کرتے ہی دونوں جماعتیں کتابوں میں رکھے سوکھے ہوئے پھولوں کی مانند ماضی کی ایک حسین اور خوش گوار یاد بن کر رہ گئیں، پی ٹی آئی اس انجام کے قریب پہنچ رہی ہے مگر اس میں احیاء کی طاقت اور اسباب موجود ہیں اور اس پارٹی کے تن مردہ میں صرف عمران خان ہی نئی روح پھونک سکتے ہیں، پی ٹی آئی آزادکشمیر جس انجام کوپہنچی یہ روز اول سے نوشتۂ دیوار تھا کیونکہ حالات ”مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی” کی تصویر تھے۔ پی ٹی آئی کے آزاد کشمیر میں فین کلب سے سیاسی جماعت بننے کا عمل اس وقت شروع ہوا جب سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود اس جماعت میں شامل ہوئے، بیرسٹر سلطان محمود کے اس فیصلے میں ان کے برطانیہ میں مقیم تعلق داروں اور حامیوں کا گہرا دخل تھا جو آج بھی عمران خان کے حق میں دیوانہ وار کھڑے ہیں، بیرسٹر سلطان محمود بھی سیاسی زندگی کے تجربات کرتے کرتے اب تھک چکے تھے اور آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سیاست میں سپیس حاصل نہ کر پانے والے سیاسی کارکنوں کی اچھی خاصی تعداد ایک تیسرے پلیٹ فارم کی متمنی اور طلب گار تھی۔ بیرسٹر سلطان محمود نے پی ٹی آئی میں شامل ہو کر سیاسی کارکنوں کو ایک متبادل آپشن فراہم کیا، یوں پی ٹی آئی سیاسی جماعت کے لیبل کے ساتھ آگے بڑھتی چلی گئی، چونکہ پی ٹی آئی کے مرکز میں برسراقتدار آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا اس لئے سیاسی کارکن ایک متبادل پلیٹ فارم کے طور پر پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے پر مجبور تھے، اس دوران آزادکشمیر کا ایک انتخاب بھی ہوا جس میں پی ٹی آئی بری طرح ہار گئی مگر سیاسی کارکنوں کا سفر جاری رہا، یہیں سے پی ٹی آئی کے آزادکشمیر کے لئے مقرر کردہ منیجرز نے نئے تجربات کی ٹھان لی۔ دائیں بائیں سے الیکٹبلز کے نام پر لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی بیرسٹر سلطان محمود کو نہ صر ف پی ٹی آئی سے بلکہ آزادکشمیر کے سیاسی کینوس سے غائب کرنے کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی، باجوہ عمران درپردہ کشمکش نے اس کھیل کو مزید پیچیدہ بنادیا، ایک
غیر سیاسی سوچ کے ترجمان کے طور پر سیف اللہ نیازی اور علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی میں بیرسٹر مخالف پول تشکیل دینے میں جُتے رہے۔ اس سے پارٹی میں دھڑے بندی کی مستقل بنیادیں پڑتی چلی گئیں، آزادکشمیر کی سیاست عمران اور اینٹی عمران کی نہیں رہی، یہاں برادریاں، دھڑے بندیاں، مہاجر حلقوں کی زمینی حقیقتیں اور سیاسی روایات سیاست کے نین نقش سنوارنے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، پی ٹی آئی جوں جوں الیکٹبلز کے چکر میں پڑتی چلی گئی تنظیم بننے سے پہلے ہی کمزور ہوتی چلی گئی، زمین پر اس کے اثرات کم ہوتے چلے گئے، مائنس بیرسٹر سوچ جوں جوں تقویت پکڑتی گئی پارٹی میں تقسیم کی دراڑیں بڑھتی چلی گئیں، یہاں تک ایک وقت ایسا آیا کہ پارٹی کی فیصلہ سازی کا سار ا کام غیر سیاسی قوتوں کے سپرد ہوگیا، عمران خان ایک زیرک اور زمانہ شناس سیاسی شخصیت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت کے طور منظم نہ کرسکے مگر پارٹی کو منظم کرنے سے زیادہ آزادکشمیر کے منفرد سیاسی مزاج کو قبول کرنا تھا۔آزادکشمیر کی سب سے بڑی سیاسی روایت یہ ہے کہ یہاں کوئی
سیاسی روایت ہی نہیں، یہاں پوری مسلم کانفرنس کسی وجہ اور جواز کے بغیر مسلم لیگ ن میں ڈھل جاتی ہے اور ستر کی دہائی کی طرح پوری مسلم کانفرنس پیپلز پارٹی کی شکل اختیار کرتی رہی ہے، یہاں ایک اسمبلی سے چار وزرائے اعظم برآمد ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہا ں اگر پوری پی ٹی آئی کسی نئے نام اور شکل میں ڈھل جائے تو اس میں کوئی انوکھا پن نہیں ہوگا، آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کے نام سے حکومت کے صدر دروازے پر فقط عمران خان کے نام کا بورڈ آویزاں تھا اندر کے معاملات بس روایتی ہی تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ پی ٹی آئی کے الیکٹبلز کی اکثریت انہی” ماہرین ”اور” تجربہ کاروں” پر مشتمل تھی جنہوں نے سردار عتیق احمد خان کے دور میں ایک اسمبلی سے چار وزرائے اعظم برآمد کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا، اب بھی وہ دوسال میں ایک اسمبلی سے تین وزرائے اعظم برآمد کرچکے ہیں، نجانے یہ سفر کہاں جا کر ختم ہو۔ اب عمران خان کی سیاست آزادکشمیر میں الیکٹبلز کے بوجھ سے آزادہو گئی۔ اب وہ آزادکشمیر میں اپنی سوچ وفکر پر مبنی سیاست کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں تو انہیںآزاد کشمیر کی زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کرآزادکشمیر کے نوجوانوں سے دوبارہ رجوع کرنا ہوگا اور فیصلہ سازی سے غیر سیاسی قوتوں اور سوچ کا عمل دخل ختم کرنا ہوگا، اس وقت ”ہمار آزادکشمیر” یا ”سب کا آزادکشمیر” کی فلاسفی کی بنیاد پرآزادکشمیر کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں ایک حکومت میں ڈھل چکی ہیں اور اس سے ووٹر کی سطح پر سیاست میں متبادل کا خلاء پیدا ہوسکتا ہے، پی ٹی آئی نئے چہروں اور نئی حکمت عملی کے ساتھ اس خلاء میں کسی حد تک اپنی جگہ بنا سکتی ہے کیونکہ متبادل کی ضرورت ہمیشہ موجود رہتی ہے اس کے ساتھ ہی عمران خان قومی سیاسی منظر کی سب سے توانا حقیقت کے طور پر موجود ہیں اور اب ان کی طرز سیاست اور طرز فغان پاکستان کی سیاست میں تادیر اپنی بازگشت پیدا کرتی رہے گی۔ مستقبل قریب تک اب ملک میں سیاسی سکون کا ہر راستہ زمان پارک سے ہی گزر کر جاتا رہے گا، جماعتوں کو منظم کرنا اور آگے بڑھانا صبر اور محنت طلب کام ہوتا ہے اور آزادکشمیر میں تو یہ جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ چہرے اور کلچر بدلے بغیر عمران خان آزادکشمیر میں اپنا فسوں قائم نہیں کر سکتے، انہیں اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا چاہئے کہ ابھی خیبرپختونخوا اور پنجاب سے ان کی مقبولیت کا کوئی ایک جھونکا بھی آزادکشمیر گلگت بلتستان کی فضائوں میں پہنچنے نہیں پایا۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت