مشرقیات

ارشاد نبویۖ ہوا کہ چوروں میں سے سب سے بڑا چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرتا ہے صحابہ کرام حیرت سے سرور کونین صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھنے لگے کہ نماز میں چوری بھلا کس طرح ہوسکتی ہے؟۔عرض کیا گیا۔۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ارشاد کا مطلب سمجھا دیا جائے تو مہربانی۔۔ جو کچھ فرمایا اس کا مطلب کچھ یوں تھا کہ نماز کے ارکان برابر ادا نہ کرنا نماز میں چوری کرنا ہے ۔ نماز کی ایک چوری تو یہ ہے کہ بدبخت آدمی نماز ہی نہ پڑھے یہ وہ چوری ہے جس کے لئے سخت ترین عذاب ہے دوسری چوری یہ ہے کہ آدمی نماز تو پڑھے مگر بے دلی سے جلدی جلدی رکوع اور سجدے کرنا ‘ جلدی جلدی تسبیح پڑھنا اور تیزی سے قرأت کر لینا یہ سب عمل نماز کی چوری میں داخل ہیں۔ حکم ہے کہ جب نماز پڑھو تو یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے جب یہ حقیقت سامنے ہو تو پھر جلدی کے کیا معنی؟ اور فرض لالنے کا کیا سوال۔نماز کا ایک ایک رکن احترام اور وقار سے ادا ہونا چاہئے ۔ہم نماز پڑھتے ہیں تو دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں آدمی سوچتا ہے بھلا اس نمازسے کیا فائدہ ہوگا؟ بتایا گیا کہ وسوسے توآتے ہی رہیں گے انہیں ایمان کی علامت سمجھو خبردار ان وسوسوں کی وجہ سے نماز نہیں چھوٹنا چاہئے ۔ یہی کیا کم شکر کی بات ہے کہ ہمارے اعضاء تو رکوع و سجود میں لگے رہتے ہیں ‘ زبان تو آیات الٰہی کی تلاوت کرتی ہے ۔
حضرت ابوذر غفاری نے ارشاد فرمایا ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی تاکید کی لوگوں نے پوچھا۔ وہ کیا؟ فرمایا کہ نماز پڑھنے میں کتے کی بیٹھک نہ بیٹھنا یعنی ایک پیر کاپنجے دوسرے پر رکھ یا ایڑیوں پر بیٹھنا منع ہے مردوں کے لئے حکم ہے کہ داہنے پیر کا پنجہ کھڑا رہے دوسرے پیر کے بنجے کو لٹا کر اس پر بیٹھو۔پہلی مرتبہ اللہ اکبر کرتے وقت سیدھے پیر کا انگوٹھا جہاں ہو پھر نماز ختم کرنے تک وہ وہیں رہے ۔ عورتوں کے لئے حکم ہے کہ بیٹھتے وقت داہنی طرف دونوں پیر نکال لیں۔
حضرت ابوذر نے فرمایا۔ دوسرا حکم اللہ کے رسولۖ نے یہ دیا کہ جب سجدہ کرو تو مرغ کی طرح ٹھونگیں نہ مارتے جائو ایک کے بعد دوسرا سجدہ فوری نہ کرو دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھو اتنی دیر جتنی دیرتبسیح پڑھی جاتی ہے ۔ پھر اللہ کے رسولۖ نے ارشاد فرمایا کہ جب سجدہ کرو تو اس طرح نہ بچھ جائو جیسے لومڑی بچھ جاتی ہے مردوں کے لئے حکم ہے کہ کہنیاں زمین سے اونچی رہیں عورتوں کو کہنیاں ٹیک کر سجدے کرنے کا حکم ہے ۔فرض اور سنتیں پڑھ لینے کے بعد جب نفلیں پڑھنے کا وقت آتا ہے توعام طور پر لوگ نفلیں بیٹھ کر پڑھتے ہیں اس کی اجازت تو ہے لیکن بہتر ہے نفلیں بھی کھڑے ہو کر ہی پڑھی جائیں سننن ابوداودکے باب نماز میں ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ کیا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ کر نفلیں پڑھا کرتے تھے؟ ام المومنین نے جواب دیا کہ ۔۔ ہاں !مگر جب آپۖ کی عمر زیادہ ہوگئی اور کمزوری بڑھ گئی تو اس وقت آپۖ بیٹھ کر نفلیں پڑھنے لگے ۔ مکی زندگی کے ابتدائی دنوں میں جب سورہ مزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات بھر جاگ کر نفلیںپڑھا کرتے تھے نفلوں کی کثرت سے آپ کے پائوں سوج جاتے تھے لیکن آپۖ کھڑے رہ کر ہی نماز پڑھتے تھے آپۖ کی یہ حالت دیکھ کر کبھی کبھی صحابہ دبی زبان میں عرض کرتے کہ آپۖ اتنی ریاضت نہ کریں توارشاد ہوتا۔ کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں نفل نمازیں شکر گزاری کی علامت ہیں اس لئے بلا عذربیٹھ کر نفلیں پڑھا مناسب نہیں۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے