چینی کی سمگلنگ۔۔ ذمہ دار کون؟

ایف بی آر کی جانب سے افغانستان’ بھارت اور ایران کی سرحدوں سے منسلک مخصوص علاقوں کو سمگلنگ کی روک تھام کے لئے سامان کی چیکنگ سخت کرنے کا فیصلہ اگرچہ نظر بظاہر ایک اچھا فیصلہ ضرور ہے تاہم اسے نہ تو بروقت قرار دیا جا سکتا ہے نہ ہی اس کو دیر آید درست آید کے الفاظ میں لپیٹ کر اس پر اظہار اطمینان کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے بلکہ اسے متعلقہ اداروں کے اندر موجود بعض بدعنوان افراد کی مبینہ ملی بھگت اور حقائق سے آنکھیں بند کرنے سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے’ پورا ملک جانتا ہے کہ مختلف اشیاء کی سمگلنگ کا قصہ نیا ہے نہ ہی اس میں اداروں کے اندر موجود بعض کالی بھیڑوں کی تلویث کوئی نئی بات ہے’ غلغلہ تب اٹھتا ہے جب کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس سے اداروں کی ”غلط کاریوں” کے حوالے سے شرمناک حقائق سامنے آجاتے ہیں’ جیسا کہ حال ہی میں طورخم بارڈر پر رمضان المبارک کے آخری دنوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں پہاڑی تودوں کے ان ٹرکوں اور ٹرالروں پر گرنے کی وجہ سے سیمنٹ کی بوریوں میں چینی کی بھاری مقدار میں سمگلنگ کا انکشاف ہوا اور تصاویر میڈیا پر وائرل ہوئیں’ اب اگر اس سارے معاملے کو صرف سمگلروں کے کھاتے میں ڈال کر متعلقہ اداروں کے افراد کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جائے تو شاید ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ سمگلرز اکیلے ہی اس معاملے میں ملوث ہوں اور متعلقہ عملے کو بالکل ہی”بے خبر اور منزہ عن الخطائ” قرار دیا جائے تو اس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہو گا کیونکہ کوئی بھی غیر قانونی کام اداروں کے اندر موجود بعض مبینہ کالی بھیڑوں کی مرضی اور منشاء کے مطابق کیا جائے ایسا کسی بھی طور ممکن ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اس قسم کے طور طریقے مبینہ بدعنوان افراد ہی کے ذہن رساء میں آجاتے ہیں اور پھر ملی بھگت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے’ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس مبینہ بدعنوانی میں سارے متعلقہ افراد ہی ملوث ہوتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سب ہی”نہائے دھوئے گھوڑے” ہیں اور ایسے ہی مٹھی بھر بدعنوانوں کی مبینہ حوصلہ افزائی ہی کے نتیجے میں یہ غیر قانونی دھندہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب قومی خزانے کو بھاری ٹیکسوں سے محروم رکھا جاتا ہے تو دوسری جانب ملک میں چینی کی قلت پیدا کرکے چینی کو مزید مہنگا کرکے عوام پر مہنگائی مسلط کی جاتی ہے’ اس واقعہ کے بعد اس قسم کی خبریں کہ چیکنگ سخت کر دی گئی ہے کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ چیکنگ کرنے والے کون ہیں؟ اور وہ پہلے کیا کرتے رہے ہیں؟ یہ ایک وقتی غبار سے زیادہ کچھ بھی نہیں لگتا اور جیسے ہی چند روز گزر جائیں اور لوگ اس واقعہ کو بھول بھال جائیں گے تو یہ دھندہ دوبارہ شروع ہونے کے امکانات پہلے سے بھی زیادہ روشن ہو سکتے ہیں، اس حوالے سے ایک اور خبر کے مطابق طورخم بارڈر پر ذخیرہ کی گئی 2600 کلوگرام چینی موضع باچہ مینہ سے برآمد کرکے سرکاری قبضے میں لے لی گئی ہے جسے مبینہ طور پر افغانستان سمگل کیا جانا تھا’ ادھر چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں گندم’ چینی’ کھاد اور دیگر اشیاء ضروریہ کی سمگلنگ کی روک تھام کے لئے دس سرحدی اضلاع میں محکمہ خوراک کی21 چیک پوسٹیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا یہ فیصلہ اصولی طور پر توخوش آئند بھی ہے اور محولہ اشیاء کی سمگلنگ پر قابو پانے میں مدد گار بھی ہو سکتا ہے تاہم اس حوالے سے ضروری اقدام صرف نئی چیک پوسٹوں کا قیام ہی نہیں ہو سکتا بلکہ ان چیک پوسٹوں پر تعینات کیا جانے والا عملہ بھی ایماندار ‘ خدا خوف اور ملک و قوم کے مفادات پر یقین رکھنے والا ہونا چاہئے کیونکہ اگر ان چیک پوسٹوں پر تعینات ہونے والوں میں بھی خدانخواستہ ”کالی بھیڑیں” ہی شامل ہوں تو سمگلنگ کی روک تھام کی بجائے مبینہ طور پر ”مٹھی گرم کرکے” سمگلنگ جاری رہنے کے خدشات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا’ اصل مسئلہ ہی دیانت اور ایمانداری کا ہے اور جب تک متعلقہ عملے میں یہ خصوصیات نہیں ہوں گی’ بدعنوانی کو ختم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن