آمدن میں اضافے کے جائز اور غیر مناسب اقدام میں فرق

حکومت بڑھتے ہوئے اخراجات پر قابوپانے ‘ بیرونی قرضوں کی واپسی کے لئے اقدامات (اکثر آئی ایم ایف کے دبائو میں آکر) کرنے پر مجبور ہے جس سے عوام کی مشکلات میں روز بروزاضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور عوام کا جینا دو بھر ہو رہا ہے ان اقدامات میں سے کچھ کو تو بہ امر مجبوری درست قرار دیا جا سکتا ہے تاہم بعض اقدامات قطعاً غیر ضروری بلکہ عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں اضافہ ہی قراردیا جا سکتا ہے’ مثلاً یہ جوٹی وی’ یوٹیوب چینلز’ ویب سائٹس کے اشتہارات پر 18فیصد جی ایس ٹی لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس کو کسی نہ کسی طور قابل برداشت قرار دے کر اور اس کا تعلق متعلقہ اداروں اور افراد پر ذاتی ٹیکس کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ ٹی وی چینلز پر مزید اٹھارہ فیصد ٹیکس لگانے سے چینل مالکان کو پہلے سے بے روزگاری کے عفریت کا شکار کرنے والے ملازمین کی تعداد میں مزید اضافہ کرنے کا جواز بھی ہاتھ لگ سکتا ہے تاہم یو ٹیوب چینلز ‘ ویب سائٹس وغیرہ میں سے ایسے بہت ہی کم ہوں گے جن کی آمدن قابل ذکر اور قابل رشک قرار دے کر ان پر ٹیکس لاگو کر دیا جائے، قطع نظر اس معاملے کے یہ جو سرکار نے گیس میٹر کے چارجز چار سو سے اچانک پانچ ہزار کر دیئے ہیں اس سے بڑا ظلم غریب عوام پر اور کیا ہو سکتا ہے کہ اچانک اور راتوں رات نہ صرف میٹر کا کرایہ بڑھانے اور وہ بھی گزشتہ جنوری سے بڑھانے سے عوام کی پہلے سے مختلف مدات میں اضافے در اضافے سے بنی ہوئی درگت میں مزید کتنے فی صد اضافہ ہونے جا رہا ہے اب تو جو شخص گیس استعمال نہ بھی کرے تو اسے پانچ سو روپے تو ادا کرنا ہی پڑیں گے جس سے حکومت کے وہ دعوے کہ کم سے کم اتنے ایم بی یونٹ استعمال کرنے والوں پر گیس کے اخراجات میں اضافہ نہیں ہوگا یا یہ لوگ اضافہ سے مستثنیٰ ہوں گے خس و خاشاک کی طرح ہوا میں بکھرتے نظر آرہے ہیں اور مذاق بن کر رہ گئے ہیں، یہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور عوام کی مہنگائی کے ہاتھوں پہلے سے اکھڑی سانسوں کو بالکل ہی روکنے کے مترادف ہے جبکہ آنے والے بلوں میں جنوری سے بقایاجات کی مد میں ہر صارف کوآنے والے بلوں میں دو ہزار کے بقایا جات ادا کرنا ہوں گے، ٹیکسوں کی بھرمار اب حد سے گزر چکی ہے اور عوام کے لئے ناقابل برداشت کے الفاظ اب بے معنی ہوتے جا رہے ہیں، آخر ظلم کی یہ انتہا کہیں رکے گی بھی یا اسی طرح آگے بڑھتی رہے گی؟ کیا سووموٹو لینے والی عدالتوں کو صرف سیاسی معاملات ہی پر سووموٹو لینا ہی یاد رہے گا یا عوام پر مظالم کے آگے بند باندھنے کے لئے بھی سووموٹو کی ضرورت کا احساس ہوگا؟۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی