بلبل کے نالے اور ہمہ تن گوش مصاحب

تہذیبوں اور قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ لکھتے ہوئے آرنلڈ ٹائن بی نے اپنی یہ حیرانی بھی ظاہر کی کہ عجیب بات ہے ، جب بھی کوئی قوم روبہ زوال ہوتی ہے تو گھروں ، دفتروں ، قہوہ خانوں اور کھلے عام ہر شخص سیاست کی باتیں کرنے لگتا ہے ۔ ہر ایک بڑے زور و شور سے حالات کے تجزئیے کرتا ہے ، دوسروں پر شبہ کرنے لگتا ہے اور اصلاح احوال کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا جاتا ۔ قارئین کرام !! ہمارے ہاں بھی آج کل یہی ہو رہا ہے ۔ کہیں بھی چلے جائیں تو بس یہی ایک موضوع ہے جس پر صبح شام ایک بے معنی اور لا حاصل گفتگو جاری رہتی ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے اہل دانش بھی ایسی باتیں کر کے صرف مایوسی پھیلا رہے ہیں ۔ مَیں ایک عرصہ سے الیکٹرانک میڈیا پر سیاسی مکالمہ سننے سے اجتناب کر رہا ہوں اورخاص کر بیٹے کی موجودگی میں تو ٹیلی ویژن کی سکرین پر ایسے مکالماتی چینل دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ کئی سال پہلے اُس نے یہ کہہ کر شرمندہ کیا کہ آپ کن لوگوں کو دیکھ اور سن رہے ہیں جنہیں تمیز سے بات کرنی بھی نہیں آتی ۔ ہاں کبھی کبھی دوست احباب سوشل میڈیا کے ذریعے کسی قومی یا سیاسی معاملہ پر مبنی گفتگو کی کوئی وڈیو کلپ ارسال کرتے ہیں تو انداز ِ گفتگو دیکھ کر مجھے ذہنی کوفت ہوتی ہے ۔
الیکٹرانک میڈیا چینلز کی یہ کیسی کاروباری ضرورتیں ہیں کہ چند مخصوص چہرے بار بار ٹیلی ویژن سکرین پر آ کر ناظرین کو ذہنی طور پہ بے سمت اور متنفر کرنے میں ہانک پُکار کر رہے ہوتے ہیں ۔ المیہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی موضوع ہو بس یہی چند افراد یا کچھ من پسند جو علمی استعداد نہ رکھنے کے باوجود موضوع پر عالمانہ گفتگو کر تے دکھائی دیتے ہیں ۔ آج کل سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے حوالے سے جو قانونی اور آئینی نکات درپیش ہیں ، اس بارے وہ لوگ بھی ماہرانہ مشورے پیش کر رہے ہیں جنہوں نے کبھی قانون کی کسی کتاب کے اوراق بھی نہیں پلٹے ۔اس کے علاوہ وہ آئینی ماہرین بھی کمال ہی کرتے ہیں جو ٹیلی ویژن پہ آکر کبھی کسی کی حب میں تو کبھی کسی کی بغض میں ایک آئینی شق کی مختلف تاویلات پیش کر نے پر عوام کو گمراہ اور ذاتی مفاد میں کسی شخصیت کو خوش کر رہے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ماضی میں بھی اور اب بھی جب توانائی ، پانی و بجلی ، لوڈ شیڈنگ ، سیلاب ، ڈیم اور ایسے ہی دیگر اہم تکنیکی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے تو ان میں کوئی انجنئیر نہیں ہوتا بس یہی چند لوگ ماہرین بن کر مسائل کا حل تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ شاید علامہ اقبال کو بھی ایسی ہی قوم اور افلاطونوں سے واسطہ پڑا تھا جب اُنہوں نے اپنی نظم ” شکوہ ” میں یہ ظاہر کیا کہ ہماری قوم مستقبل سے بے خبر گھاٹے کے سودے میں ہے ، اپنے کردار کا تجزیہ کرنے کی بجائے بلبل کے نالے سننے میں مصروف ہے ۔
اس وقت پورا مُلک بے یقینی کی گرفت میں ہے ، ادارے بد نظمی کا شکار ہو رہے ہیں
اور عوامی نمائندے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں پورا زور لگا رہے ہیں ۔ مفاہمت کی راہ اختیار کرنے کو کوئی تیار نہیں ، جب قومی مفادات ذاتی ہوس کے تابع ہو جائیں تو کیسی تبدیلی اور کیسے حالات بہتر ہوں ۔ ہمارے چند عالم فاضل دوستوں کا کہنا ہے کہ مُلک میں جو ابتری پھیلی ہوئی ہے اُس کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ نظام حکومت ہے ۔ مَیں اُن کی یہ بات سن کر ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ وہ کون سا نظام ہے جسے ہم اس مُلک میں آزما نہیں چکے ۔ پارلیمانی نظام ، صدارتی نظام ، جمہوریت اور آمریت سب سے ہم فیض یاب ہو چکے ہیں ۔ جمہوری حکومت میں شخصی آمریت سے پالا پڑا تو آمریت میں ہمیں اسلامی نظام کا درس دیا گیا۔ جماعتی اور غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے مگر ایک مخصوص طبقہ ہی کامیاب رہا اور اب اس طبقہ میں کئی دیگر بھی شامل ہو گئے ہیں جو بھیس بدل کر حکمرانی کرنے کا شوق پورا کر رہے ہیں ۔ مُلکی سلامتی ، مُلک کی ترقی ، مُلک کی شان ، تبدیلی ، انصاف ، چوروں کا احتساب جیسے نعرے اب کھو کھلے ہو چکے ہیں ۔ ذاتی اقتدار ہی مقصد رہ گیا ہے ۔ کسی بھی حکومتی نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے ۔ بدقسمتی سے کبھی ایسا نہ ہو سکا اور یہاں بہت سی قوتوں نے اپنے جبر سے عوام کو غربت ، نفرت ، منافقت ، مذہبی جنونیت اور نفاق کی ظلمتوں میں دھکیلے رکھا ، یہاں تک کہ ہمارے دل سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ۔ ایسابھی نہیں کہ جمہوری
فکر اور نظریاتی سوچ رکھنے والوں نے خاموشی اختیار کی ہو ۔ ہمیشہ جبر کے خلاف آواز بلند کی اور آمریت میں انہیں بر سر عام کوڑے بھی مارے گئے ۔ قید وبند کی اذیتیں برداشت کرنا ، وہ ثواب کا کام سمجھتے تھے ۔ جب غیر جمہوری قوتوں نے اداروں اور مفاد پرست سیاست دانوں کی حمایت سے پاکستان میں جمہوری عمل کو مفلوج کر کے رکھ دیا اور اب بھی مختلف حوالوں سے یہ سازش جاری ہے تو یہ سیاسی کارکن مایوس ہو گئے ۔ یہ لوگ پیچھے رہ گئے جبکہ ذات اور برادری شناخت کا سب سے اہم نشان بن گئی ۔ فرقوں میں بٹے ہوئے یہ لوگ آگے آئے اور نظریہ کی بجائے شخصی سیاست کا بول بالا کیا ۔ اب جو لوگ ہمیں دھرنوں ، جلوسوں اور سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں ناچتے گاتے نظر آتے ہیں ، یہ سیاسی بصیرت رکھنے والے کارکن نہیں بلکہ اپنی من پسند شخصیتوں کے مداح ہیں جو صرف اپنے بتوں کی پوجا کرنا جانتے ہیں ۔ چند ماہ قبل قومی سطح کے ایک سیاسی رہنما سے ملاقات ہوئی تو اُنہیں بتایا کہ جمہوری نظام میں سیاستدانوں کی حیثیت ایک رہبر اور ذہن ساز کی ہوتی ہے مگر آپ لوگوں کے رویوں نے عوام میں تقسیم پیدا کر دی اور گھر گھر مخالفت بڑھتی جا رہی ہے ۔ اُنہیں ایک دو وٹس ایپ گروپس میں ہونے والی گفتگو سے بھی آگاہ کیا ۔ وہ ہنسنے لگے اور کہا کہ یہ ہر گز سیاسی ذہن رکھنے والے نہیں ہیں ، ہمیں چاہنے والے مصاحب ہیں ۔اگر ہم باہمی مخالفت چھوڑ کر کسی نظریہ یا جمہوری فکرکے حوالے سے بات کریں تو ان کا جذبہ ختم ہو جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مصاحب کو فکر فردا نہیں بس ” پالتو ” بلبل کے نالے ہیں اور یہ ہمہ تن گوش ہیں ۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے