ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا

بجٹ کا سیزن شروع ہو چکا ہے اس کا اندازہ ان خبروں سے آسانی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے جو ہر سال بجٹ کی تیاریوں کے ہنگام بے چارے سرکاری ملازمین اور خاص طور پر مزید بے چارے پنشنرز کے حوالے سے ”غیر سرکاری طور پر” فلرز چھوڑے جانے کی صورت میں سامنے آتے ہیں ‘ ہم نے سرکاری ملازمین کو بے چارے اور پنشنرز کو ”مزید بے چارے” اس لئے قرار دیا ہے کہ سرکاری ملازمین کو تو پھر بھی نہ صرف تنخواہوں میں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے اور اس پر مزید کچھ پرسنٹیج مختلف الائونسز کی صورت میں ان کی داد رسی کا سامان کر ہی جاتا ہے جبکہ ”مزید بے چارے پنشنرز” کی حالت زار یہ ہے کہ ان کو پہلے تو بڑی مشکل سے ہی اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ بھی انسان ہیں ‘ اس ملک کے باشندے ہیں اور ہر ایک تیس سے چالیس سال تک قوم و ملک کی خدمت انجام دینے کے ناتے اور اس دوران اپنی تنخواہوں سے ہر ماہ ایک خاص رقم کٹوا کر ریٹائرڈ ہونے کے بعد پنشن کے حقدار قرار دیئے جا چکے ہیں مگر جب سے پاکستان کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت اقتصادی اور معاشی بحران میں مبتلا کرکے”ڈیفالٹ” کے خطرے سے دو چار کیا گیا ہے تب سے ڈالر کی اونچی اڑان اور روپے کی روز بروز گھٹتی ہوئی قدر کی وجہ سے پاکستانی کرنسی اپنی بے حمیتی کی صورتحال سے نبرد آزما ہے اور ہر قدم پر اسے ”منہ کی کھانی” پڑ رہی ہے یوں آج سے پانچ چھ سال پہلے پنشنرز جتنی رقم بطور ماہانہ پنشن حاصل کرتے تھے اس رقم میں اگرچہ ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ (ایک سال کچھ بھی نہیں اور بقیہ سالوں میں دس یا پانچ فیصد اضافہ) ہونے کے باوجود ہندسوں کے اعتبار سے تو یہ رقم بڑھ رہی ہے مگر مہنگائی میں مسلسل اور بتدریج اضافہ ‘ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل گھٹنے کے بعد پنشن کی بے توقیری والی صورتحال سامنے آرہی ہے اور اگر کیلکولیٹر لے کر حساب لگایا جائے تو بے چارے بلکہ مزید بے چارے پنشنرز جتنی پنشن آج سے پانچ چھ سال پہلے لے کر اپنے اخراجات کسی نہ کسی طور پورے کر پاتے تھے ‘ اب ہندسوں میں اضافے کے باوجود ان کی پنشن مسلسل کم ہو رہی ہے کیونکہ پانچ چھ سال پہلے کے مقابلے میں پنشن کی رقم میں وہ طاقت رہنا تو درکنار ا لٹا اس کی قوت خرید منفی سمت میں سفر پر مجبور ہے ‘ اور پنشنرز فریادی بن کر ہر لمحے ”کشکول بدست” بن کر ہل من مزید کا بیانیہ لئے فریاد کناںرہتے ہیں ‘ یوں گویا حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو پنشنرز پر گزشتہ پانچ چھ سال سے مسلسل ڈاکہ پڑ رہا ہے اور جو کچھ ان کو ملتا تھا ‘ اب اس میں بھی کمی واقع ہوتی جارہی ہے ۔ اس پر بھی گزشتہ برس آئی ایم ایف نے ”ڈنڈے سوٹے اٹھا کر” حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس پنشن سے نجات حاصل کرے اور یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ موجودہ پنشنرز کو ایک خاص رقم یکمشت ادا کرکے ان سے جان چھڑالی جائے تاکہ یہ ہر سال کی جھنجھٹ باقی ہی نہ رہے اور موجودہ ملازمین کو پنشن کی سہولت ختم کرکے مبتادل منصوبہ کے تحت ریٹائرمنٹ پر بڑی رقم دے کر پنشن کی سہولت ختم کردی جائے ‘ حالانکہ پنشنرز کو پنشن دے کر ان پر حکومت کوئی احسان نہیں کرتی بلکہ یہ ان کی اپنی ہی کمائی ہوئی رقم ہے جو وہ اپنے اپنے سکیل کے مطابق قاعدے قانون کی رو سے ہر ماہ اپنی تنخواہ سے کٹوا کرقومی خزانے میں جمع کراتے ہیں ‘ تاکہ یہ جمع ہو کر ان کی ملازمت کے اختتام پر کچھ کمیوٹیشن کی شکل میں یکمشت حاصل کرکے اپنے بچوں کے لئے مناسب چھت تعمیر کرکے یا پھر ان کی شادیوں پر خرچ کرکے ان کے گھربسا سکیں ‘ اور باقی کی رقم قانون کے مطابق پنشن کی صورت ہر ماہ حاصل کرکے گھریلو اخراجات پورے کرسکیں ‘ یہ کوئی احسان ہے نہ خیرات جو حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے بلکہ اصولاً وہ امانت ہے جو وہ ہر ماہ ملازمت کے دوران حکومت کے پاس جمع کراتے ہیں اور امانت میں خیانت کسی بھی صورت میں کرنا قانون اور مذہب دونوں کے نزدیک پسندیدہ عمل نہیں ہے ‘ مگر جب سے پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا گیا ہے وہ حکومت کو ہر سال بجٹ کے موقع پرسرکاری ملازمین اور بطور خاص پنشنرز کا گلا دبانے پر مجبور کرتا ہے جس کے نتائج بے چارے ملازمین اور مزید بے چارے پنشنرز کو رونے ‘ چیختے اور چلانے کی صورت میں بھگتنا پڑتے ہیں ‘ گویا بقول سدرشن فاکر
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو ان کابھی رونا رولیں
جن کو مجبوری حالات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رولیں فاکر
ہم کو ہر روزکے صدمات نے رونے نہ دیا
بات ہو رہی تھی بجٹ کے حوالے سے سرکاری(موجودہ اور ریٹائرڈ) ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں”اضافے” کے ضمن میں سامنے آنے والی ایک خبرکے بارے میں جسے ہم نے (Filler) اس لئے قرار دیا کہ یہ ہر سال کا معمول ہے ‘ یعنی پہلے تیس پینتیس فیصد اضافے کی اطلاع مارکیٹ میں پھینک دی جاتی ہے ‘ اس کے بعد وقتاً فوقتا اس میں رد و بدل کرتے ہوئے اسے کبھی 25فیصد کبھی بیس فیصد اور کبھی پندرہ فیصد کے ہندسوں کے درمان گھمایا جاتا ہے جیساکہ آپ نے اکثر ٹی وی شوز میں اس گول بورڈ کو گھماتے ہوئے دیکھا ہو گا جس پر مختلف ہندسے یا پھر کوئی اشیاء ہوتی ہیں اور کھیل کھیلنے والوں کو اسے گھمانے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ جب وہ چکر کھاتے ہوئے اپنی رفتار آہستہ کرکے اسی گول بورڈ پر لگی ہوئی سوئی کے سامنے آکر رکے تو سوئی جس خانے پر ہو ‘ انعام وہی ہوتا ہے ‘ یہی صورتحال سرکار والا تبار بجٹ کے موقع پر ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے حوالے سے کھیل کی شکل میں ڈھال کر مختلف ہندسوں کے درمیان ملازمین کو گھماتی رہتی ہے ‘ یہاں مگر بورڈ کو گھمانے کی ساری اٹکل وہ اپنے پاس رکھتی ہے یا پھر ملازمین کی بجائے (بہ امر مجبوری ہی سہی) آئی ایم ایف کے پاس پہنچا دیتی ہے جو 35/30فیصد اضافے کی خوشخبریاں سنا سنا کر ملازمین کونہال کرتے ہوئے ‘ یورپ کے جوئے خانوں میں ایک گول پہئے کے اندر چھوٹی چھوٹی گولیاں ڈالنے کے عمل کیدوران متعلقہ آپریٹر(درون میز) ایک خاص بٹن دبا کر یہ گولیاں مخصوص نمبروں والے خانے ہی میں پہنچا کر صرف ایک شخص کو جیتنے اور باقی ساری رقم جوئے خانے کے خزانے میں پہنچا دیتا ہے ‘ تو یہ جوپہلا فلر تیس فیصد اضافے کاچھوڑا گیا ہے ‘ اسے نہ حتمی سمجھا جائے نہ اس سے کوئی خوش کن امید وابستہ کی جائے ‘ ابھی بجٹ کے آنے تک اس میں کئی مرتبہ تبدیلیاں سامنے لائی جاتی رہیں گی اور پشتو کے ایک مقولے کے مطابق ”د مقدمے سر تہ گورہ” یعنی مقدمے کے فیصلے پر نظر رکھیں ‘ تو جس روز بجٹ کا اعلان کیا جائے گا اس روزشاید یہ ہندسہ دس یا پانچ فیصد کے گھومنے والے پہئے میں پھنس کر واضح کر دیا جائے گا۔
سر آئینہ میرا عکس ہے ‘پس آئینہ کوئی اور ہے

مزید دیکھیں :   کیا اسے جاری رکھنا ممکن ہوگا؟