مشرقیات

حضرت جریر صحابی رسولۖ معظم تھے اپنے صاحبزادے منذر سے ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ بیٹے! دن کا ابتدائی حصہ تھا ہم لوگ اللہ کے رسولۖ کے پاس بیٹھے تھے کہ کچھ لوگ آئے۔ ان کے جسم پر عبائیں تھیں یا کھالیں۔ ان میں بڑی تعداد قبیلہ مضر کی تھی بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب ہی قبیلہ مضر کے لوگ تھے۔ یہ لوگ جس حال میں آئے تھے اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ضرورتمند ہیں۔ جانے کب سے بھو کے تھے، چہروں سے فاقے کے آثار ظاہر تھے۔ انہیں دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا، اللہ کے رسولۖ تو کبھی کسی پریشان حال کی پریشانی دیکھ ہی نہ سکتے تھے۔ فوراً اٹھے گھر میں گئے کہ ان کی مدد کے لئے جو کچھ ملے لادیں لیکن وہاں کیا تھا ، خالی ہاتھ لوٹ کے آئے تو آپ ہی جانیں آپۖ کے دل کو کیا دکھ ہوا ہوگا، آپۖ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ اٹھو اور اذان دو! اس اذان کا مطلب ہوتا فوراً حاضر ہو جائو! چنانچہ حضرت بلال نے اذان دی اور مسلمان فوراً جمع ہو گئے، اقامت ہوئی تو امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، نماز پڑھانے کے بعد صحابہ کرام کو خطاب کر کے آپۖ نے ایک تقریر فرمائی جس میں امداد باہمی پر زور دیا۔ ارشاد ہوا کہ لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، ان دونوں سے مردوں اور عورتوں کی تعداد بڑھائی ہیں، رب سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔ رشتہ داری اور قرابتداری کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔
یہ سورہ نساء کی ایک آیت کا مطلب ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلاوت فرمایا۔ آپۖ نے اس موقع پر یہ بات واضح کی کہ قبیلہ مضر کے یہ لوگ جن کے بارے میں شاید کوئی سوچتا ہو کہ اجنبی اور غیر ہیں یہ اجنبی اور غیر نہیں۔ یہ بھی تمہارے بھائی ہی ہیںکیونکہ سب آدم کی اولاد ہیں جب یہ بات واضح ہوگئی تو آگے یہ بات آئی کہ ضرورت پر ہر ایک کو دوسرے کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ سب ایک ہی کنبے کے افراد ہیں پھر اللہ کے رسولۖ نے سورہ حشر کی ایک آیت تلاوت فرمائی۔ جس کا مطلب ہے۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالی کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے ۔ آیات ربانی کی تلاوت کے بعد جن کا مطلب صاف سمجھ میں آرہا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے ہر آدمی اپنے روپے پیسے اور مال میں سے کچھ صدقہ دے، کچھ کھجور ، اگر ممکن ہو تو ایک صاع صدقہ دے (ایک ناپ جوسوا چار سیر کا ہوتا ہے)۔ آخر میں آپۖ نے فرمایا۔
کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ممکن ہو تو لے آ۔ مگر کچھ نہ کچھ خیرات کرو کہ یہ اللہ کا فرمان ہے۔
صحابہ کرام اٹھے جو جس سے بن پڑا لے آیا، اللہ کے رسولۖ کے آگے کپڑوں اور غلے کا ڈھیرلگ گیا۔ اسے دیکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ خوشی کے مارے دمک اٹھا، کسی کو دے کر یا کسی کو دیتا دیکھ کر آپۖ بہت خوش ہوتے تھے۔ اسی موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتداء کی اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کو بھیجو بعد میں اس کام کو اپنائیں گے۔ اللہ کے رسولۖ نے مسلمانوں کو طرح طرح سے جینے کا سلیقہ سکھلایا انسانیت کے ایسے ایسے اصول سکھا دیئے کہ دنیا کے کسی خطے میں چلے جایئے کوئی ان خوبیوں سے انکار نہیں کر سکتا ۔سب انہیں اچھا کہیں گے اور ہر دور میں اچھا کہیں گے اسی لئے اسلام کو دین فطرت کہتے ہیں کیونکہ اس کے اصول ازلی اور ابدی ہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں