پاک امریکا تعلقات بحالی

پاکستان نے امریکا پر زور دیا ہے کہ فوجی امداد اور فروخت جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں معطل کردی گئی تھی اسے بحال کیا جائے امریکہ کی قیادت کی جانب سے کلیدی تزویراتی خطے میں اس دو طرفہ تعلقات کی اہمیت پر اب توجہ دوبارہ سے نظر آتی ہے دوسری جانب پاکستان بھی اس پر آمادگی ظاہر ہوتی ہے امر واقع یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات ایک طویل عرصے سے غیر یقینی صورتحال میں گھرے ہوئے ہیں۔چین کے ساتھ امریکی مقابلے میں شدت اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت نے پاکستان کیامریکا کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکی حکومت کی مشاورت سے روسی تیل کا پہلا آرڈر دیا۔انہوں نے افغانستان میں استحکام لانے میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بھی بات کی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کا استحکام ضروری ہے۔امریکی عہدیدار الزبتھ ہورسٹک ا بھی اس بات پر اتفاق تھا کہ امریکا اور پاکستان دونوں ایک ایسا خطہ چاہتے ہیں جہاں دہشت گردوں کا کوئی خطرہ نہ ہو اور سرحدوں کا احترام کیا جائے، اس مسئلے پر بات کی۔چیلنجوں سے آگے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے الزبتھ ہورسٹ نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، علاقائی استحکام اور خاص طور پر ماحولیاتی اور صحت جیسے عالمی چیلنجوں پر مل کر کام کریں۔انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کے موجودہ اقتصادی راستے کی پائیداری کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتا ہے اور تکنیکی رابطوں اور مدد کے ذریعے پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا، خاص طور پر جب پاکستان کو ایسی پالیسیاں بنانے کی ترغیب دینے کی بات ہو جو کھلے اور منصفانہ، شفاف کاروباری ماحول کو فروغ دیں۔پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت میں اتار چڑھائو عالمی حالات سے مشروط رہا ہے ایک مرتبہ پھر اب دونوں ممالک کو اپنے تعلقات کی نوعیت کی بہتری کا اب جبکہ دوبارہ احساس ہو رہا ہے تو اس موقع پر اس معاملے کو بھی طے کرنا ہو گا کہ ماضی کی طرح دبائو اور یکطرفہ نوعیت کے تعلقات کی بجائے امریکا اور پاکستان اپنے تعلقات کا احیاء اس انداز میں کریں کہ برابری و مساوات نظر آئے دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھنے اور اپنا اپنا متعین کردار نبھانے پر خلوص سے توجہ دیں تو یہ ونوں کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے یکطرفہ اور دبائو پر مبنی تعلقات کا ماضی میں تجربہ سامنے ہے جس سے گریز کیا جانا چاہئے تاکہ اتار چڑھائو کے تعلقات کی بجائے تعلقات یکساں رہیں اور حالات اس پر کم سے کم اثر انداز ہوں۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی