لکی مروت میں دہشت گردی کے بار بار کے واقعات

خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں مشتبہ طور پر دہشت گردی کے واقعات پیش آنے کا سلسلہ ختم نہیں ہواسرکاری ذرائع کے مطابق لکی مروت شہر میں خوف ناک دھماکا ہوا جس کے بعد کئی دھماکے اور شدید فائرنگ ہوئی۔ دھماکا گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے قریب ہوا جہاں پر سیکیورٹی فورسز کے اہلکار موجود تھے اور ایک فوجی کیمپ ہے۔لکی مروت میں یہ حملہ24اپریل کو لکی مروت کے گائوں پہاڑاخیل تھل میں انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے دوران پولیس افسران کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں3انتہاپسندوں کی ہلاکت کے بعد پیش آیا ہے جہاں انتہاپسندوں نے اس سے قبل ایک ریٹائرڈ کرنل کو ان کے گھر میں قتل کیا تھا۔محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)کے انسپکٹر فائرنگ کے تبادلے کے دوران زخمی ہونے کے بعد دم توڑ گئے تھے۔علاوہ ازیں جمعے کو علی الصبح مزید کئی واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں، ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل میں دو اور ضلع ٹانک کے علاقے میرکالام میں ایک واقعے کی اطلاع ملی ہے۔ایک تسلسل کے ساتھ لکی مروت اور اردگرد کے علاقوں میں واقعات سے اس امر کا ا ظہار ہوتا ہے کہ اس ضلع اور خاص طور پر اطراف میں شدت پسند عناصر کے ٹھکانے اور نیٹ ورک موجود ہے جو موقع ملنے پر کاررائی کی کوشش میں ہوتی ہے قطع نظر اس کی شدت اور دہشت گردوں کی موجودگی و تعداد کے ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ان حملوں کی روک تھام کے لئے دفاعی تیاریوں کو مزید مضبوط اور مربوط کیا جائے ان ٹھکانوں اورمشتبہ افراد کے خلاف جامع کارروائی پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ان عناصر کی سرکوبی کی جا سکے اور ان کے نیٹ ورک و موجودگی اور ٹھکانوں کو ختم کرکے علاقے کے امن کو محفوظ بنایا جائے ان واقعات کی ذمہ داری کسی جانب سے قبول نہ کرنا اور غیر معروف تنظیم کی جانب سے ان کارروائیوں کی دعویداری بھی قابل توجہ امر ہے ممکن ہے بچھے کچھے اور دہشت گردوں کے نظر سے ہٹ کر کچھ عناصر کسی انتقامی کارروائی کے تحت یہ وارداتیں کرتے ہوں اس کی بھی تحقیقات اور اس نیٹ ورک کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ ان دعوئوں میں کس حد تک صداقت ہے اس امر کا زیادہ امکان نظر آتا ہے کہ ان واقعات میں وہ عناصر ملوث ہوں جن کو گزشتہ حکومت نے واپسی کا موقع دیا تھا اور اب ممکنہ کارروائی کے ڈر سے وہ زیر زمین جا کر کارروائیاں کر رہے ہوں جو بھی ممکنات اور امکانات ہوں ان کا جائزہ لینے اور لکی مروت و اطراف میں ایک بڑے آپریشن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ آئے روز کے ان واقعات کا تدارک اور سدباب ہو سکے ۔

مزید دیکھیں :   کے پی کی سیاحت خطرے میں