ایک طویل سیاسی پارلیمانی اورعدالتی ا ختلاف کے بعد بالاخر حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کا آغاز دیرآید درست آید کے مصداق ہے ملک میں سیاسی اختلافات کے باعث گزشتہ ایک سال سے ہیجان خیزی کا جو عالم رہا وہ کسی سے پوشیدہ امر نہیں ملکی حالات معیشت اور سیاست سے پیدا شدہ صورتحال سے ہر شعبہ بری طرح متاثر ہوا یہاں تک کہ قومی ادارے بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ نہ رہ سکے عوام مسلسل اس انتظارمیں رہے کہ بالاخر ہوش کے ناخن لئے جائیں گے اور یہ صورتحال زیادہ عرصہ نہیں رہے گی لیکن بدقسمتی سے ان کو نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ وہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی خدشات کا شکار ہوئے اس دورانیے میں خاص طور پر نوجوان نسل کی مایوسی بڑھی اور ملک چھوڑ کر جانے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ اس امر پردال ہے کہ اس صورتحال کا سب سے زیادہ اثر ہمارے نوجوان طبقے نے لیا جنہیں اپنے مستقبل اور کیریر کی فکر میں تشویش کا شکار ہونا فطری امر بھی تھا۔ حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات اگر خالصتاً سیاسی جماعتوں کا فیصلہ ہوتا اور سیاسی و جمہوری طریقہ سے اپنے اختلافات طے کرنے اور انتخابات کی ماہ و تاریخ پر اتفاق کی خالصتاً سعی سیاستدانوں کی طرف سے ہوتی تو اسے ملکی سیاست میں ہوش کے ناخن لینے کا عمل گردانا جاتا مگر یہ ہر کسی کومعلوم ہے کہ یہ سیاستدانوں کا سیاسی طریقوں سے مذاکرات پر آمادگی کا عمل نہیں بلکہ ملکی اداروں اور عدالت سبھی کاا س میں پس پردہ یا اعلانیہ کردار تھا بنابریں یہ مجبوری کی شادی او مجبوری کا رشتہ ہی ٹھہرتا ہے بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اب بھی اگر سیاستدان دھوبی پاٹ اور سیاسی شہ مات کی کوششوں کی بجائے اخلاص کے ساتھ اختلافات سے نکلنے اور ملک میں بیک وقت انتخابات کا غیر متنازعہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد اور نتائج کو تسلیم کرنے پر اتفاق پر متفق ہوں تو گزشتہ راصلواة کہا جا سکتا ہے اگرچہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں لیکن اب بھی شرائط اور معاملت باقی ہے جس پر اختلاف اور ان مذاکرات کے کامیاب اور لاحاصل ہونے ہر دو کے امکانات موجود ہے مقام اطمینان یہ ہے کہ حکومت میں شامل دو اہم جماعتیں اس امر کی خواہاں نظر آتی ہیں کہ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے اور ملک میں سیاسی بحران کا حل نکل آئے البتہ ایک طاقتور جماعت عقاب کا کردار ادا کرنے میدان میں کودی ہے اور وہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود اس عمل سے دور ہے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اس کی گنجائش ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ جماعت کس انتہا پرجاتی ہے بظاہر مذاکرات سے اختلاف کے باوجود اتحادیوںکا فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے تو زیادہ بڑی بات نہیں البتہ اگرحکومت سے علیحدگی جس کی توقع نہیں کا انتہائی اقدام اٹھایا جاتا ہے تو پھرسیاسی ارتعاش مزید طول پکڑ سکتا ہے لیکن بہرحال خواہ کچھ بھی ہو جب ایک مرتبہ انتخابات بارے اتفاق رائے پیدا ہوجائے تو پھر سیاسی حالات میں بہتری اور سیاسی جماعتوں کی ساری توجہ یہاں تک کہ عوام بھی عام انتخابات کی طرف متوجہ ہو گی اور ملک سیاسی بحران سے نکل آئے گا۔ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور یہی اختلافات سے نکلنے کا معروف جمہوری راستہ رہا ہے مذاکراتی عمل کو اگرچہ برف پگھلنے سے مشابہ عمل قرار دیا جا سکتا ہے مگر قوم کو حقیقی اطمینان اس وقت ہی ہو گا جب فریقین میں اتفاق رائے کی نوید سنائی جائے گی۔ سیاسی ایشوز کو سیاستدانوں کو باہم مل بیٹھ کر ہی حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی معاملات کے مستقبل کا تعین بھی سیاستدانوں کے اپنے ہاتھ میں رہے اور دوسروںکومخل ہونے کا موقع نہ ملے ایسا تبھی ہوسکتا ہے جب سیاستدان سیاسی معاملات کو مل بیٹھ کر حل کریں گے ۔ اب جبکہ مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے تو سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ماضی و حال کے معاملات اور خاص طور پر الزام تراشی کے رویے کا اعادہ نہ کریں بلکہ اس میں وقت ضائع کرنے کی بجائے درپیش مسئلے کاحل نکالنے پر اپنی توانائیاں صرف کریں اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے الجھے ہوئے معاملات کو سلجھائیں ۔یہ سیاسی دانش کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ درپیش مسائل کاحل نکالنے کی صلاحیت ثابت کریں اور ملک میں جاری سیاسی کشیدگی اور عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو اس بحران سے نکالیں۔جملہ معاملات پر اتفاق رائے کے بعد فریقین اگر پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کرکے ملک کو اس صورتحال سے نکالنے میں کامیاب ہوئے تو یہی بعد از خرابی بسیار وہ نکتہ ہے جو مناسب اور حالات کے تقاضوں کا ادراک ہو گا امیدکی جا سکتی ہے کہ فریقین اس بحران کاحل اس طریقے سے نکالیں گے کہ سیاستدانوں ‘ سیاسی عمل اور عدلیہ کی بھی ساکھ رہ جائے گی۔
