غیرجانبداری، بدزبانی اور موروثیت

ہمارے ہاں آجکل صحافیوں بالخصوص ان صحافیوں سے جو پی ٹی آئی رجیم کے ناقد ہیں یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ غیرجانبداری کا مظاہرہ کریں، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی لوگ ان صحافیوں، اینکروں اور یوٹیوبرز کے لئے تالیاں پیٹ رہے ہوتے ہیں جو بنی گالہ اور زمان پارک کے فضائل بیان کرتے نہیں تھکتے اور ان کے خیال میں عمران خان صرف پاکستان کی ہی نہیں اسلامی دنیا کی بھی آخری امید ہیں، وہ اس کے ثبوت میں خان کے کچھ پرانے ارشادات اور تقاریر کے ٹوٹے پیش کرتے ہیں، خیر خان صاحب اپنے بارے میں بھی بہت کچھ کہتے رہے ہیں یہاں تک کہ وہ اس امر کے دعویدار بھی ہوئے کہ اللہ تعالی نے مجھے اس طرح تیار کیا جسے پیغمبروں کو تیار کرتا ہے، آپ میرا پیغام لے کر گلی گلی پھیل جائیں، برصغیر پاک و ہند کی معروف مسلم متھ کہ اس کی مرضی کے بنا پتہ نہیں ہلتا کی روشنی میں ہمیں خان کے اس قول بنی گالوی کو مسترد نہیں کرنا چاہئے، جہاں تک غیرجانبداری کا تعلق ہے تو یہ ممکن نہیں یہاں ہر شخص کسی نہ کسی سیاسی و مذہبی جماعت و گروہ کے لئے تھوڑا زیادہ نرم گوشہ بہرطور رکھتا ہے، کسی ایک جماعت اور شخصیت کے حق میں قلم کو تلوار بنا لینا اور پھر دعویٰ کرنا میں غیرجانبدار ہوں یہ صریحاً منافقت کے زمرے میں آتا ہے، یہ درست ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر عمران خان کا بیانیہ بک رہا ہے، یوٹوبرز کی اکثریت کو اس بیانیہ کی حمایت کرنے کے فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ جہاں تک بد زبانی کا معاملہ ہے تو آجکل اس میں سوشل میڈیا کے انصافی صارفین پہلے اور جاتی امرائی محبین دوسرے درجہ پر ہیں، معروف گٹر سیاست جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوئی جب مارشل لا کے حامی اخبار نویس بھٹو خاندان کی کردار کشی کر کے فیض و کرم سے جھولیاں بھرتے تھے، نیلے آسمان کے نیچے یہ سانحہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کبھی جن کے پاس انارکلی کے عبدالرحمن ہوٹل میں کھانا کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے وہ دیکھتے دیکھتے کروڑ پتی ہوگئے، جنرل ضیاء الحق کے بعد اگر کسی نے ہم خیال صحافیوں کی ”ماں” بن کر پرورش کی تو وہ مسلم لیگ (ن) ہے، نواز شریف نواز ان کے معاملے میں اتنے دریادل ثابت ہوئے کہ انہوں نے نجی محفلوں میں لطائف سنانے والے کو سفیر بنادیا۔ پیپلزپارٹی اس معاملے میں بدقسمت رہی اس نے جسے گود لیا، کھلایا، پلایا پھر اسی نے اسے ڈسا۔ آپ محترمہ بینظیر بھٹو کے اولین دور میں بنائے گئے پیپلز میڈیا سیل سے شروع کیجئے اور آصف علی زرداری کی صدارت و یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ تک کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے اس جماعت نے جس جس پر احسان کیا الحمدللہ اس کے شر سے بچ نہیں پائی، عمران خان اس حساب سے خوش قسمت ہیں انہیں انتخابی مینجمنٹ کی طرح صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکروں کا لشکر بھی بری میں ملا تھا، جنرل پرویز مشرف کے دور سے آئی ایس پی آر وغیرہ وغیرہ اینڈ وغیرہ نے سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے جو لشکر پالا پوسا تھا وہ 2018ء کی انتخابی مینجمنٹ کے تحت عطا ہوئے اقتدار کے ساتھ عمران خان کو مل گیا، کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں، ان سارے کرداروں سے آپ بخوبی واقف ہیں، پھر بھی یاد کیجئے اس عجب کرپشن کی غضب کہانی والے عظیم تحقیقاتی رپورٹر کو جس کے بارے میں آئی ایس آئی کراچی کے ایک سابق انچارج بریگیڈیئر امتیاز احمد عرف امتیاز بلا نے ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا وہ ہمارے لئے سات ہزار روپے ماہوار پر مخبری کرتا تھا، آئی ایس پی آر نے ففتھ جنریشن وار کے لئے جو لشکر تیار کیا وہ ننانوے فیصد آج عمران خان کے ساتھ ہے، یہ سارا لشکر پچھلے ڈیڑھ عشرے کے دوران ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی صحافتی کور سمجھا جاتا تھا، آج کل یہ صحافتی کور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس صحافتی کور کے خیال میں عمران خان آزادی، غیرت، ایمان، پاکستان کی علامت ہے، اس طویل تمہید کے بعد مکرر عرض کردوں کہ غیرجانبداری بالکل نہیں ہوتی یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ صبح شام کسی جماعت یا شخصیت کے گن گاتے رہیں اور غیرجانبداری کا دعویٰ بھی کریں گے تو لوگ ہنسیں گے ہی۔ ہاں اعتدال کے ساتھ اپنی بات کہنا بری بات ہرگز نہیں مگر کیا یہ پورا سماج جس قسم کے مسائل سے دوچار ہے اس میں اعتدال ممکن ہے؟ آپ اس سوال پر غور کیجئے، ہم آگے بڑھتے ہیں، ہمارے ہاں کی تھڑے باز سیاست کے دو معروف موضوع ہیں فقیر راحموں کے بقول ”دو مرغوب کھابے”، پہلا یہ کہ اس ملک کے سارے مسائل کا ذمہ دار امریکہ ہے دوسرا یہ کہ بس جی موروثی سیاست نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہماری نسل نے کھلی آنکھوں سے دیکھا جو جماعتیں یہاں امریکہ دشمنی کا سودا فروخت کیا کرتی تھیں وہ افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ میں امریکی کیمپ میں کھڑی ہوئیں، اس قلابازی کو انہوں نے لادین سوویت یونین کے خلاف اہل کتاب کے اتحاد کے طور پر پیش کیا، ہمارے بہت سارے سرخوں نے سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ و یورپ برانڈ این جی اوز میں ملازمتیں کرکے سوشلسٹ انقلاب کا پرچم تھامے رکھا، امریکہ مخالف اسلام پسند جنرل ضیاء کے جہادی پروگرام کے سپاہی بنے اور ترقی پسند کہلانے والوں میں سے بہت ساروں نے مرحوم جنرل پرویز مشرف کے لبرل ازم کی تحسین کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا کیونکہ ان کے خیال میں جنرل مشرف انسداد دہشت گردی کی جنگ کے ہیرو تھے۔ ہمارے دو بڑے ترقی پسند بزرگ معراج محمد خان اور ڈاکٹر مبشر حسن کو تو عمران خان میں چی گویرا دکھائی دیا تھا البتہ معراج محمد خان کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ وہ غلط بس میں سوار ہوئے ہیں۔ ہم نرم سے نرم انداز میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے اپنے وقت میں ضیائ، مشرف اور عمران کا ساتھ دینے والوں سے خطائے اجتہادی ہوئی، اب آیئے موروثی سیاست کی طرف۔ آجکل عمران خان کو موروثی سیاست کے پھٹے توڑ رہنماء کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ویسے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان کی جماعت کے لئے نشاط ثانیہ کا پروگرام تشکیل دینے والے جنرل شجاع پاشا اور بعد میں آئی ایس آئی کے سربراہ بننے والے جرنیلوں نے دوسری جماعتوں سے جو لوگ پی ٹی آئی میں بھرتی کروائے ان میں سے موروثی سیاست کی برائی میں سے کتنے لوگ محفوظ و مامون تھے ؟ اچھا یہ موروثی سیاست تب کیوں نہیں دکھائی دیتی جب پہلے فوجی آمر کا بیٹا قومی اسمبلی کا سپیکر بنتا ہے اور پوتا مختلف ادوار میں وزیر مملکت سے وزیر تک بنتا ہے، تیسرے فوجی آمر کا بیٹا بھی سیاست میں ہے اور آجکل تو پہلے اور تیسرے فوجی آمر کے ورثاء تحریک انصاف میں ہیں، تحریک انصاف اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی ہے وہ سارے عسکری نابغے جو اس ملک کو امریکہ کی غلامی کا طوق پہنانے اور بندوق و منصب کے زور پر کمائی کرنے میں جتے رہے آج تحریک انصاف میں موجود ہیں یا اس کے حامی ہیں۔ ہم میں سے کبھی کسی نے اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی رشتہ داریوں پر غور کرنے کی زحمت کی ہے کہ یہ طبقہ بچوں اور دامادوں کو کس طرح جج بننے کی لائن میں لگواتا ہے، چلیں کسی دن صرف پچھلے 25 برسوں کے دوران جج بننے والے والد، سسر، داماد اور یبٹوں کی تفصیل اس کالم میں عرض کروں گا، رہا سیاست میں موروثیت کا سوال تو ہم نے یہ دیکھا پڑھا ہے کہ جو دوست بلاول کو پرچی اور وصیتی چیئرمین کہتے موروثیت کو روتے ہیں وہی اگلے سانس میں سمجھا رہے ہوتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حقیقی وارث ان کی پوتی فاطمہ بھٹو ہے، اب ذرا ساعت بھر کیلئے رک جائیں آپ 1993ء کے عام انتخابات کو ذہن میں لائیں، ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضیٰ علی خان بھٹو نے سندھ اسمبلی کی کتنی نشستوں سے کاغذات نامزدگی داخل کئے؟ ان کی جماعت پی پی (ش ب) نے کل کتنے امیدوار کھڑے کئے؟ مرتضیٰ بھٹو صرف ایک نشست سے جیتے سندھ اسمبلی کے رکن بنے، لاڑکانہ کی اس نشست سے وہ سید دیدار علی شاہ سے ہار جاتے اگر محترمہ بیگم نصرت بھٹو اپنے ہی دستخطوں سے جاری پارٹی ٹکٹ کے حامل امیدوار کی بجائے فرزند ارجمند کی انتخابی مہم نہ چلاتیں، بیگم صاحبہ نے مرتضیٰ بھٹو کی کامیابی کیلئے سندھی سماج میں ماں کیلئے موجود احترام کو کس طرح کیش کروایا یہ تاریخ کا حصہ ہے، کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہوئی اس موضوع پر آئندہ کسی کالم میں کچھ مزید عرض کریں گے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں