ہمیں اتنا تنگ مت کرو

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر خبر پھیل گئی کہ ترکیہ کہ صدر طیب اردگا ن کو زہر دیا گیا ہے جس سے ان کی طبعیت ناساز ہو گی ہے اور تشویشناک بھی ہے، اس خبر کے پھیلتے ہی عالم اسلا م ہل کررہ گیا، کیوں کہ رواں سال نہ صرف ترکیہ کے لئے بلکہ اہل اسلا م کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے وہ اس طر ح کے غالباً23 نومبر کو ترکیہ اور امریکا کے درمیان دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی شکست کا معاہدہ اختتام پذیر ہو رہا ہے، اسلامی دنیا کو طیب اردگا ن سے کافی ساری امیدیں وابستہ ہیں، انہوں نے جس انداز میں عالم اسلام کی ترجمانی کی اور عملی قدم اٹھائے ہیں اس کی وجہ سے وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی آواز بن چکے ہیں، عثمانیہ خلا فت کے خاتمے کے بعد سے مسلمانو ں کی ترجمانی عالمی سطح پر ختم ہو کر رہ گئی تھی تاہم اس عرصہ میں اگر کسی جانب سے کوئی آواز بلند بھی ہوئی تو اس کو ایک منظم اور مذموم سازش کے ذریعے ختم کر دیا گیا جیسا کہ شہید ملت لیا قت علی خان کا قتل، صدام حسین کا تختہ، قذافی جیسی شخصیات کو مٹانا اور شاہ فیصل کو راہ سے ہٹانے کی سازشیں شامل ہیں۔ یہ سچائی ہے کہ اس وقت صیہونی ٹیکنالوجی ، علمیت اور اقتصادی ترقی میں دنیا کی تمام اقوام سے فوقیت رکھتے ہیں اور ان کی سازش بھی یہ ہے کہ دوسری تمام اقوام ان کی دست نگر رہیں چنانچہ کسی ایسے شعبہ میں دوسری قوم کو ترقی کرنے نہیں دیتے جو ان سے برتری لے جا سکے، جس روز سقوط بغداد ہوا اسی روز ایک رات میں ہی عراق کے عالمی سطح کے ساڑھے تین سو سے زیادہ اسکالر کو تہ تیغ کر دیا گیا اور یہ سلسلہ بعد میں بھی جا ری رہا جہا ں جہا ں امریکا بزور طاقت گھسا وہا ں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افر اد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، چاہے وہ افغانستان، لیبیا یا
کوئی دوسرا ملک ہو، کئی ممالک میں لاپتہ افر اد کی زیادہ تر تعداد ان افرا د کی ہے جو عالمی یا قومی سطح کے اسکالر تھے، ان میں پر وفیسر، ریسرچ اسکالر، ڈاکٹرز وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ حکومتوں کے تختہ بھی اسی بنیاد پر الٹے گئے اور وہاں خون ریزی بھی اس ملک کے ہیروزکو ناپید کرنا رہی، مبینہ طور سعودی عرب کے شاہ فیصل کو قتل کر نے کی سازش بھی اسی مشن کا حصہ قرار پا تا ہے، یہ جائز ہ لیا جائے کہ وہ کیا حالات تھے جن کی بناء پر شاہ فیصل کے بھتیجے فیصل بن مساعد نے انہیں قتل کیا، تب بھی بات کھل جاتی ہے 25 مارچ 1975 کو پیغمبرِ اسلام کی پیدائش کے دن سعودی عرب کے حکمراں شاہ فیصل لوگوں سے مل رہے تھے، جب کویتی وفد کی ملاقات کا وقت آیا تو شاہ فیصل اپنے بھتیجے فیصل بن مساعد کو بوسہ دینے کے لئے آگے بڑھے، اسی وقت بھتیجے نے اچانک اپنے حبے سے ریوالور نکالا اور شاہ فیصل کو دو گولیاں مار دیں، شاہ کے ایک محافظ نے فیصل بن مساعد پر تلوار کا وار کیا، وہاں موجود ملک کے وزیر پیٹرولیم نے گارڈ سے چلا کر کہا کہ شہزادہ فیصل بن مساعد کو ہلاک نہ کرنا، فیصل بن مساعد اس دوران اطمینان سے وہیں کھڑے رہے اور گارڈز نے انہیں گرفتار کر لیا، شاہ فیصل بن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود کے قاتل فیصل بن مساعد کا سر اسی سال 18 جون کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے سب سے بڑے چوراہے پر سرِعام قلم کر دیا گیا تھا۔ شاہ فیصل کے قتل کے بعد مساعدکے بارے میں ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ وہ دماغی طور پر عدم توازن کا شکار ہیں۔ شاہ فیصل اپنے دور کے حوالے سے ترقی پسند تھے، انہوں نے خواتین کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کروایا اور اسی طرح انہوں نے وہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی شروع کروایا، شاہ فیصل نے مستقبل میں بادشاہ چننے کے لئے کونسل بنائی تاکہ یہ مسئلہ مستقل طور پر ہی حل ہو جائے کہ اگلا بادشاہ کون ہو گا، اسی طرح کے کئی اہم فیصلے کئے جن سے ان کو عوام میں بڑی پذیرائی ملی، ان ہی میں سے ایک یہ تھا کہ سعودی شہزادے اپنے بچوں کو باہر بھیجنے کی بجائے ملک کے سکولوں میں ہی تعلیم دلوائیں، اسی طرح انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا، ملک کی پہلی وزارتِ انصاف قائم کی اور پہلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا، 1962ء میں بھی انہوں نے ایک حکمنامہ جاری کر کے ملک میں غلامی یا غلام رکھنے کے رواج کو بالکل ختم کر دیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری تھا۔ جب ان سے کہا گیا تو انہوںنے کہا کہ ملک کا کوئی آئین بنائیں تو ان کا جواب تھا قرآن ہما را آئین ہے، اسلام صرف ایک مذہب نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے۔ ہم سعودی لوگ جدید طرز زندگی لانا چاہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ مغربی طرزِ زندگی ہو۔ ان تما م محرکا ت کے باوجود شاہ فیصل کے قتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مبینہ طور پر 1973ء کے تیل کی پابندی کا ایک بدلہ ہو جس میں مغرب کو بہت نقصان ہوا، اسرائیل نے1967ء کی چھ روزہ جنگ میں مصر، اردن اور شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کیا، اسرائیل مغربی طاقتوں کی مدد سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا تھا، 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شاہ فیصل کا کردار کھل کر سامنے آیا، جب امریکہ اور مغرب نے اسرائیل کا ساتھ دیا اور انہیں عربوں سے لڑنے کے لئے کھل کر اسلحہ اور مدد فراہم کی تو شاہ فیصل نے بطور احتجاج دنیا کو تیل بیچنے پر پابندی لگا دی، ان کے اس فیصلے کی وجہ سے دنیا میں تیل کی کھپت یکدم کم ہوئی اور اس کی قیمتیں ایک دم بڑھ گئیں، اس جنگ میں تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے مغرب میں بڑا کہرام مچا، شاہ فیصل کو خطرہ محسو س کیا جا نے لگا’ عرب اسرائیل بحران کے دوران شاہ فیصل اور امریکی سیکرٹری خارجہ کسنجر کے درمیان بات چیت میں شاہ فیصل کے منہ سے ادا ہونے والا ایک جملہ آج بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، شاہ فیصل نے سیکریٹری خارجہ کسنجر کو کہا تھا کہ ‘ہمیں اتنا تنگ مت کرو، اگر تم ہمیں زیادہ تنگ کرو گے تو ہم اپنے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دیں گے اور خیموں میں واپس چلے جائیں گے’ صرف شاہ فیصل میں یہ جرأت تھی کہ وہ یہ کہہ سکتے کہ ہم خیموں میں واپس چلے جائیں گے، اب شاید ایسی آواز طیب اردگان کی بنتی جا رہی ہے کیوں کہ سو سالہ معاہد ہ ختم ہو کر ترکیہ پر پابندیوں کی زنجیریں کٹ جائیں گی اور اس معاہد ے کے ختم ہونے کے بعد ایک نیا ترکیہ دنیا کے نقشے پر ابھرے گا جو یقینی طور پر ان قوتوں کے لئے نا قابل برداشت ہے، وہ جو دنیا میں گزشتہ صدیوں سے کرتے آرہے ہیں ان حالات میں طیب اردگان اور ترکیہ ان کے لئے خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں