توانائی بچت پالیسی

حکومت خیبرپختونخوا نے صوبے میں توانائی بچت پالیسی پر دوباہ عمل درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے رمضان المبارک کے دوران عارضی طور پر پالیسی کے تعطل کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں تک توانائی بچت پالیسی کا تعلق ہے ملک میں توانائی کے شعبہ میں مسائل درپیش ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی برس سے مختلف اوقات میں یہ پالیسی نافذ کی جاتی رہی ہے تاہم تجارتی شعبے کی جانب سے اس پالیسی کو کبھی پذیرائی نہیں مل سکی اور متبادل کے طور پر تجارت مراکز’ شاپنگ مالز میں جنریٹرز کے ذریعے بجلی کی ضرورت پوری کرتے ہوئے تجارتی سرگرمیاں جاری رکھیں تاہم شادی ہالز میں اس پالیسی پر کچھ نہ کچھ عمل درآمد کی صورت ضرور دیکھنے کو ملتی رہی کہ مقررہ وقت کے بعد زیادہ روشنی ختم کرکے ہالز میں موجود اکا دکا مہمانوں کوکھانا ختم کرنے کی مہلت دی جاتی تھی (اب بھی ایسا ہی ہے) تجارتی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کا موقف بھی کسی نہ کسی حد تک درست قرار دیا جا سکتا ہے کہ دن کے اوقات میں بھی وقفوں سے لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اور شام کے وقت میں بھی انہیں جلدی مارکٹیں اور دکانیں بند کرنے پر مجبور کرکے ان کا اقتصادی استحصال کیا جاتا ہے جس سے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے’ کاروبار تباہ ہو رہے ہیں جس سے معیشت کو الگ سے نقصان ہو رہا ہے اس لئے وہ دیر سے دکانیں کھولنے اور سارا سارا دن لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہونے کے بعد اتنی جلدی مارکیٹیں بند کرنے پرتیار نہیں ہیں’ رمضان کے پیش نظر تجارتی برادری کے موقف پر نرمی اختیار کرنے کے بعد اب جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے سخت احکامات پر صوبائی حکومت نے ایک بار پھر توانائی بچت سکیم پر عملدرآمد کا فیصلہ کر لیا ہے تواس ضمن میں اصولی طور پر کسی کو پالیسی کی مخالفت پر کمربستہ نہیں ہونا چاہئے اور ملک و قوم کے مفاد میں حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی راہ اختیار کرنی چاہئے’ تاہم اگر پھر بھی کوئی مسئلہ ہو تو صوبہ بھر کی تاجرتنظیموں اور چیمبرز کی سطح پر جائز شکایات کے ازالے کے لئے مناسب تجاویز حکومت کے گوش گزار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے’ ا مید ہے کہ اس حوالے سے باہمی مشاورت سے درمیان کی کوئی راہ نکالنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی جبکہ صرف ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی رٹ سے مسئلہ حل ہونے کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی’ امید ہے متعلقہ فریقین حکومت کی مجبوریوں اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے تعاون کی پالیسی اختیار کرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''