عالمی تنازعات اورچین کی بڑھتی ہوئی خوداعتمادی

سعودی عرب اور ایران کرہ ٔ ارض کے دوایسے ممالک تھے جن کے درمیان کشمکش ختم ہونے کے بظاہر امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے تھے ۔دونوں کے مہربانوں نے اس بات کا اہتمام کر رکھا تھا کہ چاہنے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے نہ پائیں ۔دونوں ملکوں کو باہم دست وگریباں رکھنے کے لئے کئی نئے تنازعات شروع کئے جاتے رہے ۔چین نے خاموش مگر کامیاب پس پردہ سفارت کاری کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کرادی جس کے بعدعلاقائی تنازعات میں ثالث اور سہولت کار کے طور پر چین کی خوداعتمادی بڑھتی جا رہی ہے ۔چینی قیادت دنیا کے کئی دوسرے سلگتے ہوئے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی جانب مائل نظر آرہی ہے۔ان میں فلسطین اور یوکرین کے مسائل بھی شامل ہیں ۔چینی صدر زی جن پنگ نے یوکرین کے صدر ولادیمر زلنسکی کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کر کے دونوں ملکوں میں ثالثی کرانے کی پیشکش کرکے اس جانب پہلا قدم بڑھا دیا ہے ۔یہ یوکرین کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے سربراہوں میں پہلا باضابطہ رابطہ ہے ۔عمومی طور پر اس جنگ میں چین کا ہمدرد سمجھا جا رہا ہے مگر چین اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ گہرے تعلقات کے باوجود اس جنگ کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔چینی صدر نے یوکرینی ہم منصب کو بتایا کہ چین نہ تو اس جنگ کی آگ کوپھیلتے دیکھناچاہتا ہے نہ ہی اس آگ پر تیل ڈالنا چاہتا ہے اور اس بحران سے فائدہ اُٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس سے پہلے چین نے ا س جنگ کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لئے بارہ نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا۔امریکہ نے چین اور یوکرین کے صدور کے درمیان بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے مگر ساتھ ہی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس سے یوکرین اور روس میں جنگ بندی ہوگی یا نہیں۔امریکہ یوکرین کی جنگ کی آگ میں دور کا فریق ہے مگر یہ جنگ یورپ کے پہلو میں بھڑک رہی ہے اور پورا یورپ اس جنگ کے تباہ کن معاشی اثرات بھگت رہا ہے ۔یورپ میں کساد بازاری بڑھ رہی ہے او رمہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ۔فرانس میں ایک پرتشدد تحریک چل رہی ہے اور جس نے فرانس کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔برطانیہ میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ملازمین ہڑتالوں پر ہیں اور عمومی بے چینی کی کیفیت نمایاں ہے ۔توانائی کے بحران کے باعث برطانیہ میں اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی باتیں ہو نے لگی ہیں ۔اس لئے یورپ بھی اس جنگ سے دامن چھڑانے میں ہی دلچسپی رکھتا ہے ۔وہ یوکرین میں روس کو جس طرح گھیر کر مارنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے فی الحال اس میں کامیابی نہیں ملی۔یوکرین کے ساتھ ساتھ چین نے مشرق وسطیٰ کے پرانے رستے ہوئے زخم تنازعہ فلسطین کے حل کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ چین کے وزیر خارجہ کن گینگ نے اسرائیل اور فلسطین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں فریقین کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لئے سہولت کاری کی پیشکش کی ہے۔چینی خبر رساں ادارے زنہوا کے مطابق کن گینگ نے کہا چین فلسطین اور اسرائیل دونوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ سیاسی جرات کا مظاہرہ کریںاور امن مذاکرات
دوبارہ شروع کرنے کے لئے اقدامات کریں۔چین اس میں سہولت فراہم کرنے کو تیار ہے۔چینی وزیر خارجہ نے اپنے اسرائیلی ہم منصب ایلی کوہن کوبتایا کہ چین اسرائیل اور فلسطین موجودہ کشیدگی پر فکر مندہے۔چین کی اولین ترجیح صورت حال کو کنٹرول میں لانا اور تنازعے کو بڑھنے سے روکنا یا کنٹرول سے باہر ہونے سے بچانا ہے۔چینی وزیر نے دونوں فریقوں کو بتایا کہ وہ پرامن رہیں اورتحمل سے کام لیںاور اشتعال انگیز اقدامات سے باز رہیں۔انہو ں نے کہا کہ تنازعہ کے حل کی کلید امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز اور دو ریاستی حل پر عمل درآمد میں ہے۔اس موقع پر انہوںنے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا حوالہ بھی دیا۔چین کی طرف اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لئے سہولت کاری کی یہ پیشکش اس وقت سامنے آئی ہے جب رواں ماہ رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوجیوں کی کارروائی اور مقدس مقام کی بے حرمتی کے بعد فریقین کے درمیان کشیدگی بڑھ چکی ہے ۔ اسرائیلی فورسز کی اس کارروائی کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ۔دونوں طرف سے ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ جن سے فلسطین میں تصادم کا آتش فشاں ایک بار پھر پھٹنے کو تیار ہے ۔ایسے میں فلسطین کے صدر محمود عباس اور اس تنازعے کے ایک اہم فریق حماس کے وفد نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے ۔ایک عشرے سے زیادہ مدت کے بعد یہ حماس اور سعودی حکام کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ ہے۔فلسطین کا تنازعہ پورے خطے کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لئے چین ایک بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ کی حامل طاقت کے طور پر اس تنازعے سے الگ نہیں رہ سکتا ۔سب سے اہم
بات یہ کہ گزشتہ ماہ چین کی سہولت کاری سے خلیج کا برسوں پرانا اور گنجلک معاملہ یعنی سعودی ایران کشیدگی ختم ہو گئی اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے ہیں ۔دونوں ملکوں کے سربراہان ایک دوسرے کے ممالک کے دورے کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔اس معاہدے کا پہلا اثر یمن جنگ کے خاتمے کے امکانات کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔سعودی عرب اور چین کے درمیان تعلقات کی بحالی کا مشکل ترین ہدف پورا کرنے سے نہ صرف چین کا عالمی قد مزید بلند ہوگیا ہے بلکہ دیرینہ اور اُلجھے ہوئے مسائل کے حل کے لئے اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا ۔ایران سعودی عرب تنازعے کو حل کرنے کے بعد اگر چین اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو بھی دوریاستی حل کے ذریعے نمٹاتا ہے تو یہ چین کا عالمی سفارت کاری کی دنیا میں اس کی دوسری بڑی کامیابی ہوگی ۔جس کے بعد لامحالہ چین کا تیسرا ہدف کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان سہولت کاری اور ثالثی ہوگا ۔بھارت چاہے یا نہ چاہے اسے چین کو یہ سپیس دینا ہی پڑے گی بصورت دیگر ڈریگن کو اپنے لئے جگہ بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔کشمیر کا تنازعہ دنیا کے دوسرے تنازعات سے قطعی مختلف ہے کیونکہ یہاں چین خود ایک فریق ہے کشمیری عوام کے بعد پاکستان اور بھارت اس تنازعے کے فعال اور براہ راست فریق ہیں تو چین اس تنازعے کا تیسرا بیرونی فریق ہے کیونکہ چین کی سرحدیں نہ صرف ریاست جموں وکشمیر کی آگ اُگلتی سرحدوں سے ملتی ہیں بلکہ ایک معاہدے کے تحت اس کا کچھ علاقہ اقصائے چین کی صورت میں چین کے کنٹرول میں ہے ۔بھارت پاکستان اور کشمیری تینوں فریقوں کو ذہنی طور پر اس بات کیلئے تیار رہنا چاہئے کہ کسی بھی لمحے چین کا ڈریگن ان کے کشیدگی کا شکار خیمے میں سر دے سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج