بوجھ بے معنی سوالوں کے اٹھا رکھے ہیں

روایات تبدیل ہوتے جارہے ہیں پرانی باتیں اب فرسودہ نظر آتی ہیں نئی روایات نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ ایک دور تھا جب اس بات پر لوگ یقین کرتے تھے کہ جھولا جھلانے والے ہاتھ دنیا پر بادشاہی کرتے ہیں انہی زمانوں میں کہا جاتا تھا کہ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ایک اور بات تو تقریباً گزشتہ کچھ عرصے تک مشہور اور قابل قبول رہی ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے اور ظاہر ہے اس مقولے میں خاتون سے مراد ماں کا کردار تھا۔ عباس تابش نے ماں کے اسی کردار کو زیادہ وضاحت سے یوں بیان کیا ہے کہ
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
مگر اب سب کچھ تو بدل لیا ہے یا پھر تیزی سے بدلتا جارہا ہے اور کامیابی کے پیچھے جس خاتون کا تذکرہ کیا جاتا تھا اس کا ”رشتہ” نئے سانچوں میں ڈھلتا جا رہا ہے یعنی ماں بے چاری تو کہیں دور دھندلکوں میں گم ہوگئی ہے اور اس کی جگہ ساس اور بیوی کے کرداروں نے لے لی ہے ابھی چند ماہ قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک سوزوکی وین سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آتی تھی جس کی پشت والے دروازے کے شیشے پر جلی حروف میں لکھا تھا”یہ میری ساس کی دعائوں کا نتیجہ ہے”سبحان اللہ بلکہ ماشاء اللہ اس ویڈیو پر جو تبصرے کئے گئے تھے وہ بھی بڑے کمال تھے اب کم از کم گاڑی کے مالک نے اتنی مروت کا اظہار تو کیا تھا کہ ماں کی دعا جنت کی ہوا والے مشہور مقولے کی جگہ رشتے کی ماں یعنی ساس صاحبہ کو کریڈٹ دینے پر ہی اکتفا کرکے ماں اور ساس کے پلڑے برابر کردیئے تھے ورنہ بے چاری ساس کی جگہ بیوی کے رشتے کو بھی اجاگر کرسکتا تھا۔ بات تو کامیابی ہی کی تھی نا تو کامیابی میں بیوی کے کردار کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے جیسے کہ مغل شہنشا جہانگیر کے کاندھے پر پردے کے پیچھے سے نورجہاں کا ہاتھ موجود ہوتا تھا اور وہ عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کرکے ”عدل جہانگیری” قائم کرنے میں کامیاب ہوتا تھا۔ یہاںبھی لگتا ہے کہ بیوی ہی نے اپنی ماں کیلئے اتنی قربانی دے کر شوہر نامدا کو اپنی جگہ شوہر کی ساس اور اپنی ماں کی دعائوں میں کامیابی کے زینے طے کرنے پر بیانیہ بنانے پر مجبور کردیا ہو یوں اس نے وہ دو مقولے تبدیل کرنے کا حوصلہ کیا یعنی ماواں ٹھنڈیاں چھاواں کے الفاظ ”ساسو ماواں ٹھنڈیاں چھاواں” اور ہر کامیاب شخص کے پیچھے اس کی ساس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ البتہ بے چارے کو اس مقولے کا یا تو پتہ نہ ہو بالکل اسی طرح جب ہماری عدلیہ میں سے تحریک انصاف کے سربراہ کے حوالے سے (تحریک کے کارکنوں کی اسلام آباد میں تباہی پھیرنے کے بعد کہا گیا کہ ممکن ہے خان صاحب تک ہمارا فیصلہ پہنچا ہی نہ ہو یعنی وہ بے خبر ہو۔ حالانکہ ”قانون سے بے خبری کوئی دلیل نہیں” یہ قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور دنیا بھر میں انصاف کی بنیادیں انہی الفاظ پر قائم ہیں۔ خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے اس لئے جانے دیں اور گاڑی کے مالک کی جانب آتے ہیں کہ موصوف کی معلومات جھولا جھلانے والے مقولے کے حوالے سے بالکل صفر ہوں یعنی جھولا تو مائیں جھلاتی ہیں ساسو مائیں نہیں مگر اس نے تمام مقولوں اور ضرب الامثال یا محاروں سے دامن بھرنے کا ٹھیکہ تھوڑی لیا ہوا تھا کہ وہ انہیں یاد رکھتا ممکن ہے کہ بے چارہ نسیان کا مریض ہو اور کئی مقولے بھول چکا ہوں۔ حالانکہ معترضین سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب گاڑی خرید کر اپنے کامیاب ہونے کے دور میں پہنچا ہو تو ممکن ہے اس کی والدہ اسے روتا بسورتا چھوڑ کر دنیا سے پہلے ہی رخصت ہوچکی ہو ایسے میں دعائوں کا پٹاری ساسو ماں ہی قرار دینے پر اسے آمادہ ہونا پڑا ہو۔ خیر ہمیں کیا ہم تو جانیں سیدھی بات اور سیدھی بات یہ ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک کی ساس سدھامورتی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی بیٹی اکشامورتی نے اپنے شوہر کو وزیراعظم بنایا ‘سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک ویڈیو کلپ تیزی سے وائرل ہورہی ہے جس میں برطانوی وزیراعظم کی ساسو ماں سدھامورتی فرماتی ہوئی نظر آرہی ہیں کہ میری بیٹی کی وجہ سے رشی سونک کے اقتدار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہ برطانیہ کے سب سے کم عمر وزیراعظم بن گئے ہیں میں نے اپنے شوہر کو بزنس مین بنایا لیکن میری بیٹی نے اپنے شوہر کو وزیراعظم برطانیہ بنادیا۔ دونوں کی کامیابی کی وجہ ان کی بیویاں ہیں سدھامورتی نے یہ بھی کہا کہ میری بیٹی کشامورتی نے شوہر کی زندگی کو کئی طریقوں سے متاثر کیا خاص طور پر روزے رکھنے کے حوالے سے ان کے عقیدے کو بہتر کیا ۔ یاد رہے کہ ہندو خواتین اپنے شوہروں کی لمبی زندگی کیلئے برتیعنی روزہ رکھتی ہیں اور اس روز وہ یہ برت یعنی روزہ اپنے شوہر کے ہاتھ سے مقررہ وقت پر پہلا لقمہ کھا کر کھولتی ہیں’ سدھامورتی کا اپنے داماد کے عقیدے کو درست کرنے کے حوالے سے اپنی بیٹی اکشامورتی کے کردار سے کیا مطلب ہے کیا ان کا داماد یعنی رشی سونک پہلے ان رسومات کو خرافات سمجھ کر نظرانداز کیا کرتے تھے اور ان کی اہلیہ یعنی اکشامورتی نے انہیں باور کرایا ہو کہ وہ اس رسم کے موقع پر برت (روزہ) رکھ کر انہیں وزیراعظم بنادیں گی اور کام ہوجانے کے بعد اس نے اس رسم کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنا عقیدہ درست کرلیا ہو یعنی جیسے کہ ہمارے ہاں ایک خاتون نے اپنے شوہر کو وزیراعظم بنانے کیلئے اولیاء کرام کے درباروں کے چوکھٹوں پر ”سجدہ ریزی” پر مجبور کیا جبکہ اس سے پہلے ان کے نکاح کے حوالے سے بھی بعض ”نازیبا” حرکتوں کے ارتکاب کی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ گویا بقول منیز نیازی۔
بوجھ بے معنی سوالوں کے اٹھا رکھے ہیں
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
اب فیصلہ کرنا بہرحال مشکل ہورہاہے کہ برطانوی وزیراعظم رشی سونک کی ساسو ماں ٹھیک کہہ رہی ہیں یا وہ اپنی بیٹی کو اہمیت دلانے کیلئے خود اپنے کردار کو منفی کرنے پر تلی بیٹھی ہیں حالانکہ اس موقع پر انہیں پاکستانی عدلیہ کے حوالے سے تازہ ترین آڈیولیکس سے استفادہ کرکے ساسو ماں کے کردار کو اجاگر کرنے پر توجہ دینی چاہئے تھی یعنی جیسا کہ ان دنوں پاکستانی عدلیہ میں ساسو ماں بہت ”ان” دکھائی دیتی ہیں ویسے ہی سدھامورتی کو بھی یہ کہنا چاہئے کہ بے شک میرے داماد کی زندگی میری بیٹی نے بدلی مگر بیٹی کی تربیت تو میں نے ہی کی ہے ناں گویا ساسو ماواں ٹھنڈیا چھاواں
الف انار اور اب بکری جب سیکھا تھا
وقت وہیں گر تھم جاتا تو اچھا تھا

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج