محنت کشوں کا عالمی دن

شکاگو امریکہ کا تیسرا بڑا شہر ہے، یہ 19ویں صدی کا دور ہے، جب امریکہ میں صنعتی مزدوروں کی حالت سب سے زیادہ بدتر تھی معاشی بحران اور افراتفری کا عالم تھا مزدور سرمایہ داروں کے ظلم و ستم اور بربریت کی وجہ سے زندگی اور موت کے بیچ صرف سانس لے سکتے تھے، وہاں خواتین اور بچوں کی حالت بھی عبرتناک اور اذیت ناک صورت اختیار کرکے انتہائی خراب ہو چکی تھی، بے روزگاری اپنے عروج پر تھی، اس بے روزگاری میں ہنر مند کارکنان بھی شامل تھے (1880) اس افراتفری اور بے یقینی حالات میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا ساتھ ہی ساتھ غیر ہنر مند کارکنوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا ملک میں عملی طور پر صنعتی مزدوروں کے لئے کوئی قانون کوئی قاعدہ کوئی ضابطہ نہیں تھا، ستم ظریفی یہ تھی کہ مزدوروں کو 16 سے 18 گھنٹے ڈیوٹی کرنی پڑتی تھی، جس کی وجہ سے مزدوروں کی نہ صرف سماجی زندگی مکمل طور پر تباہ ہو کر رہ گئی تھی۔ بلکہ انکی صحت بھی مشقت سہنے کی طاقت کھو چکی تھی مزدور مکمل طور پر غیر منظم تھے ان حالات میں 1870 میں انارکسٹ کامریڈز نے کافی جدوجہد کرکے مزدور کو منظم کرنے کے لئے (Eight Horse League ) نامی تنظیم بنائی، جس کا مقصد مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑنا تھا، جس کا واضح اور صاف موقف یہ تھا کہ مزدور کے کام کرنے کا وقت 8 گھنٹے مقرر کیا جائے لیکن صنعت کاروں اور وقت کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو مزدوروں سے رعایت اورانکے مطالبات کسی صورت قبول نہیں تھے انکا مطالبہ تھا کہ ان کی اجرت (تنخواہ) بہتر ہونی چاہیے، تاکہ وہ خوشحال زندگی گزار سکیں یکم مئی 1886 (میک کارمک ہارویسٹر) کمپنی میں ہڑتال جاری تھی، جس میں مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ ہماری ڈیوٹی کے اوقات 16/18 گھنٹوں سے کم کرکے "8” گھنٹے کر دیا جائے تاکہ وہ بہتر سماجی زندگی گزار سکیں ہاتھوں میں سفید جھنڈے اٹھائے ہڑتال اور احتجاج پر بیٹھے مزدوروں پراس دوران اسلحہ اور بارود سے لیس سرمایہ داروں کے زر خرید پولیس کی بھاری نفری حملہ آور ہوئی جس کے نتیجے میں متعدد کارکن جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اور وہ سفید جھنڈے انکے خون سے سرخ ہوکر دنیا میں انقلاب کے لئے سفید رنگ سے لال رنگ اختیار کرگیا یاد تب بھی عوام کے جان مال پر مامور ادارے سرمایہ داروں کے زر خرید غلام تھے اور آج بھی ہیں یاد رہے مزدوروں کی جدوجہد اور انکی قربانیوں کے نتیجے میں صنعتکاروں کو انکی ڈیوٹی کے اوقات 16 گھنٹوں سے کم کرکے 14 گھنٹے مقرر کرنے پر مجبور کیا اور اس محنت کے لئے مزدوروں کو جانی اور مالی نقصان کیساتھ ساتھ 2 گھنٹوں کی مراعات کے لئے جدوجہد پر ایک سال لگا جبکہ 14گھنٹوں سے 8 گھنٹے مقرر کرنے پر تقریبا 40 سال کا عرصہ لگا ان 40 سالوں میں مزدوروں نے جو قربانیاں دیکر آج کے مزدور کے لئے آسانیاں پیدا کی ہیں اسکا ہم سوچ بھی نہیں سکتے بہرحال اس کھلی دہشت گردی کے خلاف 4 مئی کومقامی چوک پر ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا گیا، جلسہ ختم ہونے کو تھا کہ پولیس کی بھاری نفری نے دوبارہ شرکا پر حملہ کر دیا اور کسی گمنام روپوش مشکوک شخص نے دھماکہ خیز مواد ہوا میں پھینکا جیسے ہی وہ زمین پر گرا دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں کئی نظریاتی لوگ اور مزدور شہید ہوئے اور بہت سے زخمی ہو گئے، اس واقعے کی کبھی کوئی تفتیش یا انکوائری نہیں کی گئی کہ اس حملے کے پیچھے کون سی قوت کار فرما تھی اور کس کا ہاتھ تھا، پولیس نے مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑنے والے "8” انارکسٹوں سمیت کئی مزدوروں کو حراست میں لے لیا، جس میں انارکسٹ لوئس لنگ، ایڈولف فشر، جارج اینجل، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور آسکر نپی کو بھی گرفتار کیا گیا، جس کے بعد سرمایہ دار اور تاجروں کی اخبار (سٹیزن ایسوسی ایشن) میں انارکسٹوں کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی اور تعصب کی بنیاد پر عدالت نے ان میں سے 5 کو پھانسی کی سزا سنائی جب آگسٹ اسپائیز کو عدالت میں لایا گیا تو اس نے تاریخی جملہ ادا کیا جس کو سنہری حروف سے سنہری پنوں پر لکھا گیا جس کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔
"سارے مزدور ہمارے ہیں، سارے پھول ہمارے ہیں”، ہماری آواز پھانسی کے پھندے سے خاموش کروائی جا رہی ہے، لیکن وہ دن دور نہیں جب وہ خاموش آواز ایک قوت بن کر گونجے گی، اور تمام ظالموں کو فنا کر دیگی البرٹ پارسنز کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے کہا مجھ پر قتل کے مقدمات چلائے جارہے ہیں مجھے انارکی کا مجرم ٹھہرایا گیا مجھے انارکسٹ ہونے کی وجہ سے سزا دی جا رہی ہے اگر حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ چند انارکسٹوں کو پھانسی دے کر مزدوروں پر اپنا ظلم جاری رکھ سکیں گے تو یے ان کی سب سے بڑی بھول ہے، چند انارکسٹوں کو پھانسی دینے سے تم کبھی انارکزم کو کچل نہیں سکتے، انارکسٹوں کو اپنے اصول اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، انارکیسٹ ہمیشہ اپنے نظریات کے لیے مرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، ہم مزدوروں کے ساتھ ہیں،انارکسٹوں کا بنیادی اصول اجرتوں میں نا انصافی کا خاتمہ اور موجودہ نظام کی جگہ عالمی آزادانہ تعاون کے نظام سے ہے، اگر مجھے میرے انارکسٹ نظریات کی وجہ سے پھانسی دی جائے گی تو ٹھیک ہے، مجھے مار دو، باقی "2” انارکسٹوں کو عمر قید اور ایک کو 15 سال کی سزا سنائی گئی، وہ انارکسٹ جنہوں نے پھانسی کا پھندا قبول کیا، وہ جو نہ جھکے اور نہ بکے، جب ان کے لاش کو مقامی مارکیٹ لایا گیا تو 3 سے 5 لاکھ مزدوروں نے جنازے میں شرکت کی کچھ لوگ شکاگو کے شہدا کو سوشلسٹ کہہ کر غلط بیانی کرتے ہیں، اور انہیں سوشلسٹ پیش کرتے ہیں، وہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کہ عادی ہیں، انارکسٹوں کی محنت جدوجہد کو سوشلسٹ رنگ دینا انارکسٹوں کی جدوجہد کے ساتھ ناانصافی ہیشکاگو کے شہدا سوشلسٹ مارکسسٹ نہیں تھے، وہ انارکسٹ تھے،آج 8 گھنٹے ڈیوٹی کرنے والے "مزدور” انارکسٹوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس میں انارکیسٹوں کا (لہو) شامل ہے، اور آج بھی "انارکسٹ” محنت کشوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم پر خاموش نہیں بیٹھتے، ان کی تحریکیں آج بھی پوری دنیا میں جاری ہیں، ہر وقت انارکسٹ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہیں امریکہ میں یکم مئی کو یوم مزدور نہیں منایا جاتا لیکن 8 گھنٹے ڈیوٹی سے لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں جس سے ان کی منافقت کا صاف پتہ چلتا ہے، دنیا میں یوم مزدور شکاگو کے "مزدوروں” اور "انارکسٹ” شہدا سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تب کے مزدور کے پاس کھانے پہننے اوڑھنے اور سر چھپانے کے لئے کچھ نہیں تھا آج کا مزدور خوشحال اور تمام نعمتوں سے مالا مال۔ تب کا مزدور ہزاروں میل پیدل مارچ کرتے تھے آج کا مزدور گھر بیٹھ کر انقلاب برپا کرکے نیند پوری کررہا ہوتا ہے تب کا مزدور بے بس آج کا مزدور طاقتور۔ پاکستان اپنی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے صنعتی قبرستان بننے کے قریب ہے یہاں بھی سرمایہ دار صنعت سیاست اور معاش پر قابض ہے لیکن اگر صنعتی مزدور کو دیکھا جائے تو وہ تب بھی غیر منظم تھا اور آج بھی منظم تنظیموں کے ہوتے ہوئے غیر منظم اور تقسیم در تقسیم ہے پاکستان میں سینکڑوں ٹریڈ یونینز ہیں مگر اتفاق اور اتحاد نہیں ایک دوسرے سے متنفر ہرسال یکم مئی پر اپنے علیحدہ علیحدہ تشخص اور قیادت میں چند لوگوں کو لیکر دنیا کے محنت کشوں کو ایک ہونے کا نعرہ دیتے ہیں اپنے ٹریڈ یونین کیساتھ جانے کو تیار نہیں اور نعرہ لگاتے ہیں مزدور مزدور بھائی بھائی۔ آپس میں نااتفاقی اور نفرتیں حد سے زیادہ لیکن دنیا کا غم کھائے جارہا ہے ریلوے مزدور کو واپڈا کے مزدوروں کے مسائل کا علم نہیں اور واپڈا کے مزدور سٹیل مل کے مزدور سے لاتعلق غرض پاکستان میں محنت کش طبقہ اپنے آپکو مزدور کہتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے لوگ یکم مئی کو صرف چھٹی کے طور پر مناتے ہیں انہیں کسی چوک اور چوراہے پر شکاگو کے شہدا سے اظہار یکجہتی سے کوئی مطلب نہیں لیکن ان شہدا کے خون کے نتیجے میں 8 گھنٹے ڈیوٹی اور مراعات سے مستفید ضرور ہوتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام محنت کشوں کو آگہی دینے کی ضرورت ہے کہ مزدور کہلانا کوئی گالی نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے مزدور بننا کوئی جرم نہیں ایک انعام ہے ۔ سب محنت کش چاہے سرکاری ہوں صنعتی ہوں کھیت مزدور یا دیہاڑی مار ہو سب ایک پرچم کے نیچے جمع ہوکر شکاگو کے شہدا کو سلامی پیش کریں پہ اتحاد اور اتفاق کا بہترین اور لازوال تحفہ ثابت ہوسکتا ہے پاکستان کا محنت کش طبقہ تا قیامت شیکاگو کے شہیدوں کی لازوال قربانیوں کا مقروض ہے اور رہیگا آپکا ایک ہونا انسانیت اور شیکاگو کے شہیدوں سے یکجہتی کی شاندار مثال ثابت ہوگی شکاگو کے شہیدوں تمہاری قربانیاں رنگ ضرور لائینگی ۔
تب کے مزدور اور آج کے مزدور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ غیر منظم ہوتے ہوئے بھی وقت کے فرعونوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی طاقت رکھتے تھے لیکن آج کا مزدور مختلف ٹریڈ یونینز میں منظم ہوکر بھی تقسیم اور بکھرے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''