مشرقیات

ہندوستان پر انگریزوںکی بلاشرکت غیرے حکمرانی کی راہ میں اگر کوئی آخری رکاوٹ باقی رہ گئی تھی تو اس کا نام تھا "فتح علی شیر جنگ شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان”بالاآخر ٹیپو کا وزیر میر صادق انگریزوں کے ساتھ مل گیااس وعدے پر کہ ٹیپو کو راستے سے ہٹا کر میسور کی ولایت تم کو دیدی جائیگی۔ جب انگریزوں اور ٹیپو کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوا تو میر صادق نے قلعے کی دیوار میں شگاف ڈلوادیا تاکہ انگریز فوج قلعے میں داخل ہوجائے اور ساتھ ہی قلعے کا دروازہ بھی اپنے چند ساتھوں کے ساتھ ملکر کھلوادیا۔ٹیپو کے ایک وفادار سپاہی نے یہ سب دیکھ لیا اس نے اپنی بندوق سے میر صادق کا نشانہ لیا اور گولی چلادی۔ گولی میر صادق کو لگی وہ وہیں گر کر تڑپنے لگا. اتنے میں انگریز فوجیوں کیساتھ انگریز کمانڈر بھی قلعے میں داخل ہوچکا تھااور اسکی نظر میر صادق پر بھی پڑچکی تھی وہ فورا ہی میر صادق کے پاس آیا۔میر صادق نے کہا” مجھے ٹیپو کے سپاہی نے گولی ماری ہے. میں درد سے بے حال ہوں. آج تم یہاں اگر کھڑے ہو تو میری مرہون منت ہو. تم پر لازم ہے کہ میری تکلیف دور کرنے کا بندوبست کرو.”انگریز کمانڈر نے میر صادق کی پوری بات سنکر کہا”میر صادق تم نے جو کچھ کہا بلکل درست کہا. کیونکہ تم اگر ہماری مدد نہ کرتے، تو ہم یہاں کبھی نہ کھڑے ہوتے. میں ابھی تمہاری تکلیف کو دور کردیتا ہوں.” اتنا کہہ کر انگریز کمانڈر نے میر صادق کو گولی ماردی اور اسکے قریب احتراماً کھڑے ہوکر اپنی ٹوپی اتار کر کہا.”میر صادق تمہارا علاج بس یہی تھا.تم ہمارے دوست تھے لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ تم ایک غدار بھی تھے. جس ٹیپو نے تم کو عزت دی، اپنا وزیر بنایا. تم اسکے ہی وفادار نہ ہوسکے. تو کل کو تم ہمارے کیا ہوسکو گے.”قلعہ کے اندر دو بدو لڑائی ہورہی تھی. ٹیپو کی شکست یقینی تھی۔ گو کہ یہ شیر دل انسان لڑائی ہار رہا تھالیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیںکہ جنکی غیرت و خوداری اور حق پرستی کی بنیاد پر انکے دشمن بھی انکا احترام کرتے ہیں اور ٹیپو سلطان بھی ایک ایسا مرد مجاہد تھا.نعشوں کے انبار لگنے شروع ہوگئے تھے. اچانک ہی انگریز کمانڈر کی آواز گونجی.”ٹیپو….قلعے کا پچھلا دروازہ کھولا جاچکا ہے. تم خود اپنے بیوی بچے اور اپنے اہل خانہ اور جتنا ساز و سامان اپنے ساتھ لیجانا چاہو لیکر پچھلے دروازے سے نکل سکتے ہو. تم کوضمانت دی جاتی ہے کہ بخیر و عافیت جانے دیا جائیگا اور تمہارا تعاقب نہیں کیا جائیگا.اور اسوقت اس شیر دل مجاہد نے اپنی زندگی کا وہ جملہ کہا. جو صدیوں بعد بھی بہادروں اور جانبازوں کی پہچان ہے کہ "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے”

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم