ناموزوں مطالبہ

اورکزئی کے اٹھارہ قبائل نے محص اس بنیاد پر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے خلاف مہم شرع کررکھی ہے کہ انہوںنے جرگہ کے مقام پر کیاریاں بنواکر پھول اگائے جسے جرگوں اور رسم و رواج پر پابندی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کرکے احتجاج کا راستہ اپنایا جا رہاہے۔قبائلی رستم و رواج اور جرگے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور برسوں سے جاری اس نظام کو چھوڑنا ا ن کیلئے مشکل ہونا اپنی جگہ لیکن اگر یہی جرگے اور رسم و راج ان کے مسائل کا حل ہوتے اور عام آدمی ان کے فیصلوں اور انصاف سے مطمئن ہوتا تو حکومت کو ایک طویل مرحلہ طے کرکے اصلاحات متعارف کرانے اور قبائلی علاقہ جات کو ضم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ بہرحال ہمیں ان کے رسم و رواج اور نظام جرگہ کا احترام ہے۔ضم قبائلی اضلاع کے عوام کو اب یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عدالتی اور انتظامی نظام کے آنے کے بعد اب جرگہ اور رسم و رواج کی اگر گنجائش ہے بھی تو اس کی حدود محدود ہیں اب ان کے علاقوں میں ملکی عدالتی نظام اور انتظامی امور مروج ہیں اور ان پر قانون کااطلاق اسی طرح ہوتا ہے جس طرح وطن عزیز کے ہر عام شہری پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جرگہ کے مقام پر پھول اگانے پر آسمان سر پر اٹھانے والوں کو معلوم ہوناچاہئے کہ وہ سرکاری ملکیت اور سرکاری علاقے میں عوام کیلئے بہتری کیلئے فیصلہ کرنے مجاز ہیںجسے رسم کشی قرار دینے کی بجائے اس کا خیر مقدم کیا جائے اور اگر ان کو پھر بھی تحفظات ہوں تو وہ ڈپٹی کمشنر سے مذاکرات کا راستہ اپنائیں ان کے تبادلے کا مطالبہ روانہیں اور اگر بالفرض محال ان کا تبادلہ کردیا جاتا ہے تو ان کی جگہ جو بھی سرکاری افسر آئے گا وہ انہی کے فیصلوں اور کام کو آگے بڑھائے گا۔ڈپٹی کمشنر اورکزئی کو چاہئے کہ وہ عمائدین علاقہ سے ملاقات کرکے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرے اور انہیں اس امر سے آگاہی دے کہ سابق فاٹا کے اضلاع کے ضم ہونے کے بعد کسی ضلع کا انتظام اور تنازعات کے حل کا طریقہ کیااختیارکیا جائے حکومت اور انتظامیہ کی حدود و قیود اور اختیارات کیا ہیں اور عمائدین علاقہ کی ذمہ داریاں کیا کیا ہیںاو ر وہ کس حد تک جرگہ اور مقامی رسم و رواج پر چل سکتے ہیں اور کہاں پر ملکی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ یہ معاملہ مل بیٹھ کر حل کیا جائے گا اور فریقین معاملہ فہم و فراست کا مظاہرہ کریں گے اور خوامخواہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو ہوا دینے سے گریز کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل