بدعنوانی کا بڑا الزام

حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے مفت آٹے کی تقسیم میں 20 ارب روپے سے زیادہ کی چوری اور بدعنوانی کا انکشاف اس لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ سابق وزیر اعظم محتاط سیاستدان ہیں اور وہ بولنے سے قبل تولنے کی عادی شخصیت ہیں اس لئے ان کے بیان کو محض الزام تراشی کے زمرے میں نہیں لیا جاسکتا ان کا یہ سوال یقینا قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ 84 ارب روپے کا آٹا تقسیم ہوگا مگر غریب کو کیا ملا؟جس ذمہ داری کے ساتھ انہوں نے اعداد و شمار بتاکر بدعنوانی کا انکشاف کیا ہے اس کا تقاضا تھا کہ وہ ان ذرائع اور اس میں ملوث شخصیات کی طرف بھی اشارہ کرتے جو ان کی دانست یا پھر معلومات کے مطابق اس سکینڈل میں ملوث تھے بہرحال اس سے قطع نظر اب یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالے سے تحقیقات کرے تفصیلات حاصل کرے اور بھوکے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔ جہاں تک امداد کی تقسیم اور اس طرح کے سرکاری طور پر امدادی اشیاء یا رقوم وغیرہ کی تقسیم کے معاملات میں یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ اس میں بے پناہ کرپشن ہوتی ہے جس میں ڈپٹی کمشنر سے لے کر پٹواری تک اور امدادی اشیاء کی تقسیم پر مامور عملہ عاقبت نااندیش کاروباری طبقہ بھی ملوث ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اپنا اپنا حصہ ملتا ہے۔ مفت سرکاری آٹے کی تقسیم ہونے والی بوریاں بھی گوداموں سے برآمد ہوئی اور مستحقین کا شناختی کارڈ نمبر کسی طرح حاصل کرکے ان کو ملنے والا آٹا پہلے ہی ہڑپ کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے۔مختلف طریقے بھی استعمال ہوں گے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے جب ایک احسن کام کیا جارہا تھا تو اس کی شفافیت کے ساتھ احسن انداز میں تقسیم کی کیوں منصوبہ بندی نہ کی گئی اولاً لوگوں کو رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں بلاوجہ کی مشکلات کا شکار بنایا گیا اس کی بھی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ ہجوم اکھٹا کرکے سرکاری آٹا پار کیا جائے۔ بہرحال جو بھی صورتحال تھی اس کی جامع تحقیقات اور ذمہ داروں کو سامنے لاکر نہ صرف ان پر مقدمہ چلایا جائے بلکہ ان سے وصول کرکے عام آدمی کو اس کا حق لوٹانے کا بھی بندوبست ہونا چاہئے اس کے علاوہ ازالے کی کوئی اور صورت نظر نہیں آتی۔امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اس ضمن میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گی اور اپنے دامن پر لگا داغ دھونے میں تساہل اور تاخیرکا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات